ماحولیاتی تبدیلی، شدید گرمی سے گارمنٹس ورکرز کے لیے خطرہ

ملبوسات کی برآمدات میں 65 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے

پاکستان، بنگلہ دیش اور ویتنام میں ملبوسات تیار کرنے والے مزدوروں کو بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان ممالک میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اور یہ مسئلہ عالمی برانڈز اور ریٹیلرز کے لیے چیلنج بن چکا ہے کہ وہ فیکٹریوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔

یورپی یونین کے نئے قوانین کے تحت، بڑے برانڈز جیسے انڈیٹیکس، ایچ اینڈ ایم، اور نائیکی کو اپنے سپلائرز کے حالات بہتر بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان قوانین کی روشنی میں، برانڈز پر دباؤ ہے کہ وہ فیکٹریوں میں گرمی کم کرنے کے لیے مالی مدد فراہم کریں۔

کارنیل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، کراچی، ڈھاکہ، ہنوئی اور دیگر شہروں میں 2020 سے 2024 کے درمیان زیادہ گرمی والے دنوں کی تعداد 2005 سے 2009 کے مقابلے میں 42 فیصد بڑھ گئی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، اس حد تک درجہ حرارت پر مزدوروں کو جسمانی درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، نائیکی، لیویز، اور وی ایف کارپوریشن وہ چند کمپنیاں ہیں جنہوں نے اپنے سپلائرز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں گرمی سے بچاؤ کے پروٹوکول شامل کیے ہیں۔

کارنیل یونیورسٹی کے گلوبل لیبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیسن جڈ کے مطابق، برانڈز پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ درجہ حرارت والے پروڈکشن ایریاز میں مزدوروں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ یورپی یونین کے نئے قوانین 2027 سے بڑی کمپنیوں پر لاگو ہونا شروع ہوں گے۔

فیکٹریوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہتر وینٹی لیشن، پانی سے ٹھنڈا کرنے والے نظام، اور دیگر توانائی مؤثر طریقے استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم، یہ اقدامات کاربن کے اخراج میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

جیسن جڈ نے کہا کہ کچھ فیکٹری مالکان اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے خود بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں، لیکن برانڈز پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی مزدوروں کی اجرت اور صحت کے تحفظ پر سرمایہ کاری کریں۔

ایک تحقیق کے مطابق، اگر گرمی اور سیلاب کے مسائل حل نہ کیے گئے تو 2030 تک بنگلہ دیش، پاکستان، ویتنام اور کمبوڈیا کی ملبوسات کی برآمدات میں 65 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین