سپریم کورٹ آئینی بنچ کی فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات کب فراہم کی جائیں گی؟

اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے مقدمات میں فیصلے سنانے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ خصوصی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں نرمی دی جا سکتی ہے، انہیں رہا کیا جائے، اور جن کو رہا نہیں کیا جا سکتا، انہیں سزا سنانے کے بعد جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے مقدمے کے علاوہ دیگر تمام سماعتیں ملتوی کر دیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو کہا کہ پہلے اس بات پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں یا نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے یہ وضاحت کریں کہ عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔ جسٹس جمال نے مزید نشاندہی کی کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے کا قانون ہے، اس پہلو پر بھی غور ضروری ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ خرابیاں ہیں۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو خراب کہنا مناسب نہیں، جس پر وکیل نے اپنے الفاظ پر معذرت کر لی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات کب فراہم کی جائیں گی؟ فی الحال ہمارے سامنے صرف کور کمانڈر ہاؤس کا معاملہ ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تفصیلات آج صبح موصول ہوئیں اور انہیں باضابطہ درخواست کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، ان کے تحت ہونے والے مقدمات اور فیصلوں کا کیا ہوگا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ عام طور پر کالعدم ہونے سے پہلے دیے گئے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے، جس پر جسٹس مسرت نے کہا کہ یہ ملزمان کے ساتھ تعصب ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی میں شامل ہونے والا ہر شخص اپنی مرضی سے آتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔ آرمی ایکٹ فوج کے نظم و ضبط اور قواعد کے لیے بنایا گیا ہے، جس کے تحت بنیادی حقوق محدود ہوتے ہیں۔

وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ فوج میں کوئی کام جرم کی نیت سے نہیں کیا جاتا۔ بنیادی حقوق صرف جرم کے ارتکاب پر ختم ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اپیل کنندہ کی درخواست تک محدود رہے گی یا فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے وضاحت کی کہ عدالت معروضات تک محدود نہیں رہ سکتی، لیکن فریقین اپنے دلائل تک محدود رہ سکتے ہیں۔

4o

متعلقہ خبریں

مقبول ترین