ترکیہ کے وزیر دفاع یسار گولر نے کہا ہے کہ شام میں نئی انتظامیہ کے مثبت اقدامات اور پیغامات کو دیکھتے ہوئے انہیں حکومت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ انقرہ نئی انتظامیہ کی درخواست پر فوجی تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
یسار گولر نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی انتظامیہ نے اپنے ابتدائی بیان میں اقوام متحدہ، عالمی اداروں اور دیگر حکومتوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے، اس لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ مستقبل میں کیا اقدامات کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ترکیہ نے شامی صدر بشار الاسد کی معزول حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی حمایت کی تھی۔ حال ہی میں ترکیہ نے شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا ہے، جس سے تعلقات کی بحالی کا اشارہ ملتا ہے۔
وزیر دفاع یسار گولر نے کہا کہ ترکیہ پہلے ہی کئی ممالک کے ساتھ فوجی تربیت اور تعاون کے معاہدے رکھتا ہے۔ اگر شامی حکومت فوجی مدد یا تربیت چاہے گی تو ترکیہ ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہوگا۔
ترکیہ نے 2016 سے اب تک شمالی شام میں چار بڑے فوجی آپریشنز کیے ہیں۔ ان کارروائیوں کا مقصد اپنی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو کم کرنا تھا۔ شمالی شام کے مختلف علاقوں، جیسے عفرین، اعزاز، جرابلس، راس العین، اور تل ابیض میں ترکیہ کے ہزاروں فوجی موجود ہیں۔ یسار گولر نے کہا کہ مناسب حالات میں انقرہ نئی انتظامیہ کے ساتھ ترکیہ کی شام میں موجودگی پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
یسار گولر نے کہا کہ ترکیہ کی ترجیح کرد ملیشیا "وائی پی جی” کا خاتمہ ہے، جو شام کے بڑے تیل ذخائر پر قابض ہے اور امریکا کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف کام کر رہی ہے۔ ترکیہ اس ملیشیا کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا تسلسل سمجھتا ہے، جو 40 سال سے ترک ریاست کے خلاف لڑ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو جلد یا بدیر ختم کر دیا جائے گا۔ تنظیم میں شامل شامی افراد ہتھیار ڈال دیں گے، جبکہ غیر ملکی ارکان شام چھوڑ دیں گے۔
روسی مداخلت کے بارے میں یسار گولر نے کہا کہ روس شام سے مکمل طور پر نکلنے والا نہیں۔ وہ اپنے فوجی اثاثے شام کے مختلف علاقوں سے اپنے دو مرکزی مراکز تک منتقل کر رہا ہے، لیکن ان کی موجودگی برقرار رہے گی۔
ترکیہ نئی شامی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور فوجی تعاون کی پیشکش کر رہا ہے، جبکہ شام میں دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کو اپنی ترجیح قرار دے رہا ہے۔