دوسروں کو جماہی لیتے دیکھ کر ہمیں بھی کیوں جماہی آتی ہے؟

یہ تحقیق مشہور جرنل "پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز" میں شائع ہوئی۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کسی کو جماہی لیتے دیکھ کر آپ خود بھی جماہی لینے پر کیوں مجبور ہو جاتے ہیں؟

جی ہاں، جماہی لینا واقعی ایک عجیب "چھوت” کی طرح ہے۔ نہ صرف کسی کو جماہی لیتے دیکھ کر بلکہ اس لفظ کو پڑھنے یا سننے پر بھی آپ منہ کھول کر سانس لینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

سائنسدانوں نے اس کا سبب جاننے کے لیے تحقیق کی ہے۔ اٹلی کی بولونیا یونیورسٹی کے ماہرین نے یہ معلوم کرنے کے لیے ہمارے دماغ کے نظام کو جانچا کہ آخر ہم دوسروں کی نقل کرنے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں۔

ماہرین نے دریافت کیا کہ دماغ کے کچھ خاص حصے، خاص طور پر ventral premotor cortex (پی ایم وی) اور primary motor cortex (ایم 1) کے درمیان رابطہ، اس رویے کا ذمہ دار ہے۔ یہ نظام نہ صرف جماہی لینے بلکہ دوسرے لوگوں کی نقل کرنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔

تحقیق کے دوران 80 صحت مند افراد کو 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا اور انہیں مختلف کام دیے گئے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کے دماغ کے ان حصوں کے درمیان رابطہ مضبوط تھا، وہ زیادہ آسانی سے دوسروں کی نقل کرنے پر مجبور ہوئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام نہ صرف ایک انوکھا انسانی رویہ ہے بلکہ سماجی تعلقات قائم کرنے اور نئی صلاحیتیں سیکھنے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔

جماہی سے جڑے دلچسپ حقائق

جماہی صرف انسان ہی نہیں بلکہ دیگر جانور جیسے بندر، مگرمچھ، سانپ اور مچھلیوں میں بھی دیکھی گئی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق، 55 فیصد لوگ صرف "جماہی” کا لفظ پڑھ کر یا سن کر جماہی لینے لگتے ہے۔

دانت دباکر جماہی کو روکنے کی کوشش کریں، لیکن کامیاب نہیں ہوں گے، کیونکہ جماہی کا عمل دماغ کے ایک ایسے میکنزم سے جڑا ہے جو جبڑے کھولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

جماہی لینا مزاج پر خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔

یہ تحقیق مشہور جرنل "پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز” میں شائع ہوئی۔
ایک اور تحقیق، جو ٹیمپل یونیورسٹی میں کی گئی، نے یہ بھی ثابت کیا کہ صرف "Yawning” کہنے سے بھی لوگ جماہی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

گماہی ایک معمولی سا عمل لگتا ہے لیکن یہ ہماری دماغی لچک، سماجی رویے اور تعلقات کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

مقبول ترین