وعدہ وفا نہ ہوا، پاکستان کو 20 بلین کا نقصان ہو چکا: جسٹس منصور علی شاہ

وعدہ وفا نہ ہوا، پاکستان کو 20 بلین کا نقصان ہو چکا: جسٹس منصور علی شاہ

اسلام آباد :سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدالت حکومت کو موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کرنے کا پابند بنا سکتی ہے، اور عدالتوں کی پوری کوشش ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کی آواز کو سنا جائے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی آئینی عدالتیں ماحولیات کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے شدید مسائل کا سامنا ہے، جہاں ججوں کو موسمیاتی امور کے علاوہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سمیت دیگر چیلنجز کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کلر کہار میں سیمنٹ پلانٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کلائمیٹ چینج کا مسئلہ تو نہیں اٹھایا گیا مگر پانی کا بحران ضرور سامنے آیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ سی ڈی اے کیس میں کہا گیا تھا کہ منصوبہ بندی کو ماحول دوست بنایا جائے اور ماربل کرشنگ پلانٹس کو ری لوکیٹ کرنے یا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے چلانے کی ہدایت کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے کلائمیٹ فائنانس ناگزیر بن چکا ہے، مگر بدقسمتی سے یہ پاکستان میں نہیں آرہا، حالانکہ کلائمیٹ فائنانس پبلک پرائیویٹ سیکٹرز کے ذریعے بھی ممکن ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ فائنانس کا مطلب ہی کلائمیٹ جسٹس ہے اور اگر اس پر کام نہ کیا گیا تو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق مزید گہرا ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان بدترین سیلاب جیسے ماحولیاتی بحران سے نبردآزما ہو چکا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے گلوبل فنڈز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے کیے گئے 100 بلین ڈالر کے وعدے پورے نہیں ہو رہے، ہمیں اب تک 20 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، مگر بدلے میں کچھ نہیں ملا اور ہم صرف دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان نے گرین کاربن بانڈز یا بلائنڈڈ فنڈز پر کوئی کام کیا ہے؟

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے کہا کہ یہ کام ایگزیکٹو کا ہے، اور ہمیں فوری طور پر کلائمیٹ ڈپلومیسی پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا اور ملائیشیا نے گرین سکوک کے ذریعے کامیابی حاصل کی، سعودی عرب میں بھی اس حوالے سے مثبت پیشرفت دیکھی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بھی سکوک بانڈز کی جانب پیشرفت کر سکتا ہے لیکن کیا حالیہ بجٹ میں کلائمیٹ چینج فنڈ کے لیے کچھ کیا گیا؟ ہمارا ملک اب بھی ایک ایسے ڈھانچے سے محروم ہے جو کلائمیٹ چینج کے فنڈ کو مناسب انداز میں دیکھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں کلائمیٹ فنانس میں آنے والے فنڈز پر نظر رکھیں گی اور حکومت سے اقدامات کرنے کے لیے کہہ سکتی ہیں۔ انہوں نے فضائی آلودگی کو پاکستان کا سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیچر فائنانس سے اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
انٹرنیشنل سطح پر انہوں نے ایک کلائمیٹ کورٹ کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی مسائل کو انسانی حقوق کے طور پر دیکھنا ہوگا، جبکہ میڈیا کو بھی ان اہم مسائل پر بھرپور طریقے سے بات کرنی ہوگی۔

 

 

 

 

 

 

متعلقہ خبریں

مقبول ترین