کتاب اور خطاب – تحریر: عبد الحفیظ چودھری

کتاب حکیم اور تاریخ کی کتابوں سے آثار قدیمہ اور سابقہ اُمتوں کے احوال معلوم ہوتے ہیں

کتاب اور خطاب روز اول سے علم وشعور کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ رہے ہیں، کتاب اور خطاب دونوں کی اپنی تاثیر اور دائرہ اثر ہے، کتاب وہ دروازہ ہے جو آپ کو نئے جہانوں کی سیر کرواتا ہے اورہر صفحہ آپ کو علم و شعور کی ایک نئی دنیا دکھاتا ہے۔

دور اور زمانہ کوئی بھی ہو انسانی عقل کی ترقی کتاب اور خطاب کی مرہون منت رہی ہے ،انسان نے جب اپنے تجربات اور مشاہدات کو بیان کیا تو وہ خطاب بن گئے اور ان خطابات کو جب ضبط تحریر میں لایا گیا تو وہ کتاب بن گئی، کتاب اور خطاب کا آج بھی چولی دامن کا ساتھ ہے، آج بھی علم و شعور کے فروغ میں کتاب اور خطاب کی ضرورت و اہمیت مسلمہ ہے۔ جب کتاب کا کاغذ اور خطابات کی آواز مل جاتی ہیں، تو ایک ایسی روشنی پروان چڑھتی ہے جو ذہنوں میں نئی امید اور سوچ پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قلم کالم اور لفظ کتاب کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اگر ہم کتاب اورخطاب کی اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو حضور نبی اکرم ﷺ کے مواعظ حسنہ اور کرۂ ارض کی مصدقہ اور سچی کتاب قرآن مجید سے شعور و آگہی کے اس سفر کی ابتدا ہوتی ہے، کتاب اور خطاب کا علم و شعور اور آگہی کے فروغ کے حوالے سے مرکزی کردار رہا ہے۔ آج بھی قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث و سنت مبارکہ کو علوم کے ماخذ ہونے کا مقام حاصل ہے۔ تخلیق آدم سے لے کر پوری معلوم انسانی تاریخ تک جانکاری اور رسائی کا سبب کتاب ہے۔

ہمیں کتاب حکیم اور تاریخ کی کتابوں سے آثار قدیمہ اور سابقہ اُمتوں کے احوال معلوم ہوتے ہیں، آج کل اہل علم اور دانشور حضرات مطالعہ کتب کے دم توڑ جانے والے کلچر پر فکر مند ہیں، یہ بات طے شدہ ہے جب بھی کسی قوم کا علم و شعور کی بالیدگی کا سفر رکتا ہے تو پھر اس قوم کی حیثیت آثار قدیمہ کے کسی آثار سے زیادہ نہیں رہتی۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایک کلپ میری نظر سے گزرا جس میں وہ کتاب اور خطاب کے دم توڑتے ہوئے کلچر پر دکھی تھے او روہ پیغام دے رہے تھے کتب کے مطالعہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، بالخصوص ان کے مخاطب نوجوان اور خطباء حضرات تھے۔ تحریک منہاج القرآن نے حال ہی میںملک گیر کتاب میلے سجانے کا اعلان کیا ہے، تحریک منہاج القرآن کے سرپرست اعلیٰ کی فکرمندی بجا ہے، وہ خود بھی ایک بلند پایہ ادیب و مصنف ہیں اور اُن کی شائع ہونے والی کُتب کی تعداد 700سے زائد ہے۔ میں نے ایک موقع پر جب یہ دعویٰ سنا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ایک شخص اپنی مختصر زندگی میں 700کتابیں کیسے تحریر کر سکتا ہے؟
پھر میں نے رابطہ کیا اور میں چاہتا تھا کہ میں وہ کتابیں دیکھوں لیکن میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ مجھے ایک ایسے بک سیل سنٹر لے جایا گیا جو کتابوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور پھر یہ جان کر میری حیرت کی انتہا ہو گئی کہ وہ تمام کی تمام کتابیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف کردہ تھیں، دعویٰ کے مطابق پرنٹڈ بکس دیکھنے سے میرا شک رفع ہو گیا، میں نے سیل سنٹر کے ڈائریکٹر سے کہا کہ آپ لوگ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن سے رابطہ کریں ابھی تک کوئی ایسا شخص پوری دنیا میں موجود نہیں ہے جسے 700کتابیں لکھنے کا دعویٰ ہو اور یہ 700کتابیں آپ لوگ دکھا بھی سکتے ہیں، مجھے سیل سنٹر کے ڈائریکٹر سعید شاہ نے یہ بتا کر ایک بار پھر حیران کر دیا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی لکھی جانے والی کتابوں کی اصل تعداد ایک ہزا ر ہے بقیہ کتابیں مسودات کی حالت میں ہیں اور وہ طباعت کے مختلف مراحل سے گزر رہی ہیں۔

میرے دل ودماغ میں ایک سوال نے جنم لیا میں نے پوچھا اتنی بڑی تعداد میں کتابیں ایک شخص کیسے لکھ سکتا ہے، چونکہ 24گھنٹے کی زندگی میں نیند بھی ہے آرام بھی ہے، عبادات بھی ہیں، عائلی زندگی کے اُمور ومعاملات بھی ہیں اور پھر اگر شخصیت شیخ الاسلام کی ہو تو ہزار ہا کارکنان ،تنظیمات، اندرون، بیرون ممالک کے سفر بھی ہیں تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو گیا؟ اُس کا جواب تھا کہ آغاز میں وہ خود کتابیں ہاتھ سے لکھتے تھے، بعدازاں مصروفیات بڑھنے پر وہ ایک سبجیکٹ لیتے ہیں اُس پر ایک طویل ترین خطاب ریکارڈ کرواتے ہیں، بعض خطابات سینکڑوں اقساط پر محیط ہوتے ہیں، ان خطابات کو ضبط تحریر میں لانے کا کام عملہ انجام دیتا ہے اور پھر جب پہلا مسودہ تیار ہوتا ہے شیخ الاسلام نظر ثانی فرماتے ہیں اور یوں کتاب در کتاب کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ15دسمبر 2024ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علم و فن حدیث کے موضوع پر خطاب کیا جس میں 20ہزار سے زائد علماء، مشائخ ، خطباء، اسلامیات کے اساتذہ طلباء اور خواتین سکالرز شامل تھیں، یہ خطاب 4 گھنٹے سے زائد دورانیے پر مشتمل تھا، خطاب حوالہ جات اور تاریخی واقعات سے بھرا ہوا تھا، 4گھنٹے کے اس خطاب کو ضبط تحریر میں لایا جائے تو 3ضخیم جلدوں پر مشتمل کُتب شائع ہو جائیں گی۔ یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ منہاج القرآ ن نے ایک سرچ انجن بھی بنا لیا ہے جو ہزاروں کتابوں کا آرکائیو ہو گا اور کتابوں سے محبت کرنے والے تحقیق و ریسرچ سے وابستہ لوگ اس سرچ انجن سے استفادہ کر سکیں گے، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ماڈرن سوچ، اپروچ کے مفکر ہیں، آئندہ نسلوں تک علم کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے ان کا یہ کردار یاد رہے گا۔
بہرحال بات ہورہی تھی مطالعہ کتب کی اس حوالے سے شعور اُجاگر کرنے کے لئے حکومت کو سیاسی مذہبی تحریکوں کو بالخصوص اساتذہ کو کُتب کے مطالعہ کا شعور اجاگر کرنا چاہیے، مطالعہ کتب کے فروغ کے لئے جماعت اسلامی اور اس کی طلبا تنظیم ’’جمعیت اسلامی طلبہ‘‘ کا کردار نمایاں ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بک فیئرز کا اہتمام بہرحال اس ضمن میں ایک خدمت ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اشاعتی ادارے گاہے بگائے بک فیئرز منعقد کرتے رہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایک منظم انداز میں آگاہی مہم چلنی چاہیے، اگر ہم کتاب سے دور ہوگئے تو ہم اپنی تہذیب و اسلاف سے بھی دور ہو جائیں گےاور کتاب کی محبت سے خالی معاشروں کا انجام ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے جدا نہیں ہو سکتا لیکن یہ آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ یہاں کے رہائشی ہنر مند تھے مگر ڈر ہے ہمارے آثار جہالت کی شناخت نہ بن جائیں۔ تحریک منہاج القرآن مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے ملک گیر بک فیئرز منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کام اگرچہ کٹھن ہے مگر ہے اچھا۔ اسے ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ کتابیں علم اور شعور کی روشنی پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں، لیکن جدید دور میں ان کی اہمیت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ہمارے معاشرے میں کتب کے مطالعہ کا رجحان بڑی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب نوجوان لائبریریوں کا رخ کرتے تھے، لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں موبائل فونز، لیپ ٹاپ، اور سوشل میڈیا نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ کتب بینی سے بے اعتنائی ہمارے تعلیمی نظام اور مجموعی ترقی پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے انسان کو بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں، لیکن اس کے ساتھ مطالعہ کا شوق بھی زوال پذیر ہو گیا ہے۔ لوگ اب معلومات کے لیے کتابوں کی طرف جانے کے بجائے گوگل اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف کتابی علم کو نظرانداز کر رہی ہے بلکہ لوگوں کی توجہ اور ارتکاز کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

آج کا انسان مصروف زندگی گزارتا ہے، جس میں کتاب کے لیے وقت نکالنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ روزمرہ کی تیز رفتار مصروفیات نے کتاب پڑھنے کو ایک ثانوی سرگرمی بنا دیا ہے۔ وقت کی کمی اور ڈیجیٹل مواد کی آسان دستیابی نے ہمارے معاشرے میں کتابوں کے مطالعے کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔کتاب میلوں کی اہمیت معاشرتی شعور کو اجاگر کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ پہلے وقتوں میں لوگ کتاب میلوں میں جا کر نئی کتب خریدتے اور پڑھتے تھے، لیکن اب ان میلوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔
نتیجتاً، کتابیں قارئین تک پہنچنے سے پہلے ہی دھندلا رہی ہیں۔کتابیں انسان کو گہرائی سے سوچنے اور تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرنے میں مدد دیتی ہیں، لیکن آج کی نسل ان سے دور ہو چکی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر وقت گزارنے سے نہ صرف علمی معیار میں کمی آ رہی ہے بلکہ ذہنی سکون بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کتابوں کے مطالعے سے دماغی سکون، معلومات کا خزانہ، اور تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔کتب بینی کے رجحان کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے ہمیں ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو لائبریریوں کی بحالی، کتاب میلوں کے انعقاد، اور تعلیمی نصاب میں مطالعے کو فروغ دینے والی سرگرمیاں شامل کرنی چاہییں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں اور اس کے لیے گھر میں ایک سازگار ماحول مہیا کریں

متعلقہ خبریں

مقبول ترین