اسٹیم سیلز کے ذریعے کینسر، ذیابیطس، پارکنسنز، اور دیگر مہلک بیماریوں کے علاج کی امید بڑھ رہی ہے۔ یہ طریقہ اب لیبارٹریز سے کلینیکل ٹرائلز تک پہنچ چکا ہے اور آنے والے برسوں میں جدید طب میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا امکان ہے
کینسر، ذیابیطس، پارکنسنز اور دیگر مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے اسٹیم سیلز کا طریقہ اب کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ سائنسی لیبارٹریز میں برسوں کی تحقیق کے بعد اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ طریقہ جلد ہی مہلک بیماریوں کے خلاف استعمال ہونے لگے گا۔
اینڈریو کیسی، جو ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے سے وابستہ تھے، پارکنسنز کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 2010 میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اپنی بیماری کو سمجھنے اور اس کے علاج کے لیے کچھ نیا تلاش کرنے کے جذبے کے تحت، وہ 2024 میں ایک کلینیکل ٹرائل کے لیے رضاکار بنے۔ سویڈن کے شہر لُنڈ میں، سرجنوں نے ان کے دماغ میں انسانی ایمبریونک اسٹیم سیلز سے تیار کردہ اعصابی ڈوریاں داخل کیں تاکہ نقصان زدہ ٹشوز کی بحالی ممکن ہو سکے۔
اس وقت 100 سے زائد کلینیکل ٹرائلز میں اسٹیم سیلز کو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے آزمایا جا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر تجربات حفاظتی پہلوؤں پر مرکوز ہیں، لیکن اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اسٹیم سیلز کے ذریعے جسمانی بافتوں کو تبدیل کرنے یا نئے ٹشوز بنانے جیسے طریقوں سے کینسر، ہارٹ فیل، مرگی، آنکھوں کی بیماریوں اور ذیابیطس جیسے امراض کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔
مارٹن پیرا، جو ایک امریکی لیبارٹری میں اسٹیم سیلز کے ماہر ہیں، کے مطابق، "اس شعبے میں ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ صرف 26 برس پہلے ہم نے اسٹیم سیلز کو کلچر کرنا سیکھا تھا، اور آج ہم انہیں علاج کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔”
اگرچہ اسٹیم سیلز تھراپی کے نتائج امید افزا ہیں، لیکن ابھی کئی چیلنجز موجود ہیں۔ محققین یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے کون سے سیلز سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں گے۔ ساتھ ہی، امیونو سپریسنٹ دواؤں کے ممکنہ اثرات اور انفیکشن کے خطرے کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے، اس پر بھی تحقیق جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق، کچھ اسٹیم سیلز تھراپیز جلد ہی کلینکس میں دستیاب ہوں گی، جب کہ دیگر پانچ سے دس سالوں میں عام طب کا حصہ بن جائیں گی۔ اس پیش رفت نے ریجنریٹیو میڈیسن میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ ذیابیطس کے مریضوں پر اسٹیم سیلز کے کامیاب نتائج دیکھے جا چکے ہیں، اور کینسر کے علاج کے لیے یہ طریقہ پہلے ہی استعمال ہو رہا ہے۔