گلگت بلتستان کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کو دھمکانے کے کیس میں 34 سال قید کی سزا سنادی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سیکیورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن افسران کو دھمکایا۔ اس کے علاوہ ان کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس سزا کا یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب وہ جعلی ڈگری کیس میں بھی نااہل قرار پائے تھے
گلگت بلتستان کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید کو سیکیورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن کے افسران کو دھمکانے کے کیس میں 34 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے ان کے قومی شناختی کارڈ کو بلاک کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ کو مجموعی طور پر 34 سال قید اور 6 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا جب خالد خورشید نے سیکیورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن کے افسران کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔
21 دسمبر 2023 کو گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے انہیں جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد، وزیر اعلیٰ خالد خورشید کی قانون کی ڈگری پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی غلام شہزاد آغا نے ان کی قانون کی ڈگری کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت چیلنج کیا تھا۔
اس کے بعد 21 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے خالد خورشید کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر راجا شہباز نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
خالد خورشید 2020 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اور کامیاب ہونے والے 7 آزاد ارکان کی حمایت سے حکومت تشکیل دی تھی