ملک و قوم کے بانی مجیب الرحمان نہیں بلکہ جنرل ضیا الرحمان ہیں؛ بنگلادیش کا تعلیمی نصاب تبدیل کر دیا گیا

مجیب الرحمان کو 15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا

بنگلادیش میں نئی عبوری حکومت نے ملک کے نصاب کو تبدیل کر دیا ہے، جس میں جنرل ضیا الرحمان کو بانی کہا گیا ہے جبکہ سابقہ نصاب میں بابائے قوم مجیب الرحمان کو یہ اعزاز دیا گیا تھا۔

حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی عبوری حکومت نے نیا تعلیمی نصاب مرتب کر لیا ہے۔ بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت نے حقائق درست کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی کی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق، بنگلادیش کے نئے تعلیمی نصاب میں بابائے قوم مجیب الرحمان کی جگہ جنرل ضیا الرحمان کو رکھا گیا ہے۔ نیشنل کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین نے بتایا کہ نئی نصابی کتب میں کہا گیا ہے کہ جنرل ضیاء الرحمان نے 1971 میں بنگلادیش کی آزادی کا اعلان مختلف بنگلا ریڈیو اسٹیشنز سے کیا تھا۔

2025 کے تعلیمی سال کی نئی نصابی کتب کے مطابق، 26 مارچ 1971 کو جنرل ضیاء الرحمان نے بنگلادیش کی آزادی کا اعلان کیا اور 27 مارچ کو بنگ بندھو کی طرف سے آزادی کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے درسی کتب میں بابائے قوم اور بانی ملک شیخ مجیب الرحمان کو اہمیت دی گئی تھی۔

مصنف اور محقق رکھل راہا نے بتایا کہ نصاب میں تبدیلی کا مقصد مبالغہ آمیز اور مسلط کردہ تاریخ کو درست کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تحقیقات میں پتہ چلا کہ یہ معلومات صحیح نہیں ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان نے وائرلیس پیغام کے ذریعے آزادی کا اعلان کیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق، حسینہ واجد کے دور میں پہلی سے دسویں جماعت کی نصابی کتب میں آزادی کے اعلان کے حوالے سے معلومات میں تبدیلی کی گئی تھی۔

چلیں دیکھیں کہ اس معاملے کا پس منظر کیا ہے۔ 26 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے آخری پیغام میں کہا کہ یہ بنگلادیش کی آزادی کا دن ہے۔ انہوں نے لوگوں سے آزادی کے لیے لڑنے کا کہا اور "جے بنگلا” کا نعرہ لگایا۔

اگلے دن میجر ضیاء الرحمان نے مشرقی پاکستان میں اپنے سینیئر لیفٹیننٹ کرنل جنجوعہ کو قتل کر کے مختلف ریڈیو اسٹیشنز پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے ان ریڈیو اسٹیشنز سے آزادی کا اعلان کیا لیکن بنگلادیش بننے کے بعد مجیب الرحمان صدر بن گئے۔

مجیب الرحمان کو 15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ بغاوت کرنے والے جنرل مشتاق احمد صدر بن گئے اور ضیا الرحمان کو میجر جنرل کا عہدہ دیا گیا۔

بعد میں ایک اور بغاوت ہوئی جس میں جنرل خالد مشرف شامل تھے، اور ضیاء الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد لیفٹننٹ کرنل ابو طاہر کی قیادت میں سوشلسٹ فوجی افسران نے بغاوت کی، جس میں لیفٹننٹ کرنل راشد نے ضیاء الرحمان کو آزاد کر کے دوبارہ آرمی چیف بنا دیا۔

تاہم، ضیاء الرحمان کو خطرہ تھا کہ ابو طاہر ایک اور بغاوت کرنے والا ہے، جس پر انہوں نے 21 جولائی 1976 کو ابو طاہر کو قتل کر دیا۔ بعد میں 19 نومبر 1976 کو وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔

اس کے بعد بنگلادیش کی سیاست تقسیم ہو گئی، جہاں مجیب الرحمان کے حامیوں نے شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں اور جنرل ضیا کے حامیوں نے ان کی اہلیہ خالدہ ضیا کی قیادت میں اپنی جماعتیں بنائیں۔

حسینہ واجد کے حامی مجیب الرحمان کو قوم کا بانی مانتے ہیں، جبکہ خالدہ ضیا کے حامی جنرل ضیا کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ نوے کی دہائی سے، حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے درمیان سیاسی چپقلش جاری رہی، جہاں اگر ایک اقتدار میں ہوتی تو دوسری جیل میں ہوتی۔

حسینہ واجد نے مسلسل 15 سال حکومت کی، لیکن ان کی آمریت نے اپوزیشن کو دباؤ میں رکھا، تاہم یہ حکومت گزشتہ برس اگست میں طلبا تحریک کے نتیجے میں ختم ہوئی۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین