10 سالوں میں بے روزگاری کی شرح 1.5 سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ گئی

دستاویز کے مطابق، 2021 کے دوران پاکستان میں بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی تھی

پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران بے روزگاری کی شرح 1.5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جبکہ آبادی میں اضافہ اور خواتین کی کم روزگار کی شرح اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ معیشت کی ترقی کے لئے نئے روزگار کے مواقع اور تعلیمی سہولیات کی بہتری کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد: وزارت منصوبہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں ہر سال 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، جو ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ڈال رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ملک میں بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں پاکستان کی بے روزگاری کی شرح 1.5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

بھارت میں بے روزگاری کی شرح 4.5 فیصد اور بنگلہ دیش میں 5 فیصد سے زائد ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں ہر سال بے روزگاری کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، جبکہ پاکستان میں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

آبادی میں خواتین کی شرح تقریباً 46 فیصد ہے، جبکہ خواتین کی روزگار کی شرح گزشتہ 13 برسوں سے 22 فیصد پر جمی ہوئی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ صحت، تعلیم، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ آبادی کنٹرول کئے بغیر غربت، صحت اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانا مشکل ہے۔ بے روزگاری میں پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش سے آگے ہے اور خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان خواتین کو روزگار فراہم کرنے میں بھی سب سے پیچھے ہے۔

دستاویز کے مطابق، 2021 کے دوران پاکستان میں بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ بے روزگاری ختم کرنے کے لیے پاکستان کو سالانہ 15 لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہے اور 17 فیصد خواتین کو لیبر فورس میں شامل کر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کو 6 فیصد کم کرنا ہو گا۔

1680 ڈالر کے ساتھ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کی بنسبت فی کس آمدنی بھی کم ہے۔ رواں مالی سال کے لیے فی کس آمدنی کا تخمینہ ساڑھے 5 لاکھ روپے تک لگایا گیا ہے، جس میں گزشتہ مالی سال کی نسبت تقریباً 70 ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق، پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور موجودہ شرح سے 2050 تک آبادی دگنی ہو جائے گی۔ وسائل کم ہونے کے باعث تقریباً 2 کروڑ 55 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کے باعث شرح خواندگی صرف 61 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ پنجاب میں 96 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، سندھ میں 78 لاکھ، کے پی کے میں تقریباً 49 لاکھ اور بلوچستان میں 50 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جبکہ صورتحال اتنی ابتر ہے کہ 3 کروڑ 83 لاکھ میں سے تقریباً 77 لاکھ گھر کچے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین