ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی اور ارب پتی کاروباری شخصیت ایلون مسک اس انکشاف پر حیران رہ گئے کہ امریکا اپنے ٹیکس دہندگان کی رقم افغانستان کو امداد کے طور پر فراہم کر رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، ایلون مسک نے یہ ردعمل سابق امریکی صحافی لارا لوگن کی جانب سے اس معاملے کو اجاگر کیے جانے کے بعد دیا۔ مسک نے اس حقیقت پر حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا، یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم ان دہشتگردوں کو ہفتہ وار 4 کروڑ ڈالر فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سراسر پاگل پن ہے۔
ریپبلکن قانون ساز کے ایک خط پر تبصرہ کرتے ہوئے، جو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لکھا گیا تھا، ایلون مسک نے ایک پوسٹ میں لکھا، کیا یہ سچ ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم طالبان کو بھیجی جا رہی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کو غیر ملکی امداد کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
یہ خط 2 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ کو لکھا گیا تھا، جس میں ریپبلکن رکن کانگریس ٹم برچیٹ نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان کو بھیجی جانے والی غیر ملکی امداد کا ایک حصہ، جو غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے، بالواسطہ طور پر طالبان کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (ایس آئی جی اے آر) کی کانگریس کو پیش کردہ رپورٹ کے مطابق، امریکا افغانستان کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2021 میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد سے امریکا افغان عوام کو 21 ارب ڈالر سے زائد امداد فراہم کرنے کا وعدہ کر چکا ہے۔
ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مائیکل میک کول نے اس امداد کی سخت نگرانی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے طالبان کو انسانی امداد سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
ریپبلکن قانون ساز برچیٹ نے اپنے خط میں تشویش ظاہر کی کہ امداد طالبان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، کیونکہ وہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔ انہوں نے افغانستان کے مرکزی بینک کو بھیجی جانے والی نقد رقوم کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ ان رقوم کا سراغ لگانا مشکل ہے اور طالبان انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ معاملہ نومنتخب صدر ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے اہم افراد، جیسے ایلون مسک، کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مسک نے عوامی سطح پر اس قسم کی غیر ملکی امداد کے اخلاقی پہلوؤں پر سوال اٹھایا ہے۔
یہ معاملہ اجاگر کرنے والی صحافی لارا لوگن، جن کے انتہائی دائیں بازو کے نظریات اور متنازع تعلقات کی وجہ سے ان کی ساکھ پر سوال اٹھتے رہے ہیں، نے قدامت پسند حلقوں میں اس بحث کو مزید ہوا دی ہے۔ ان کے خیالات ویکسین کے مخالفین اور انتخابی دھاندلی کے نظریات کے حامل افراد میں خاصے مقبول ہیں، جس کی وجہ سے اس موضوع پر مزید گفتگو اور تنازع پیدا ہو رہا ہے۔