لڑکیوں کی کم عمری میں شادی پر بنی فلم سلمیٰ ریلیز

پاکستان میں ایک کروڑ 90 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو نوعمری میں شادی کے بندھن میں بندھی ہیں

کم عمری کی شادی نہ صرف لڑکیوں سے ان کا بچپن، خوشیوں اور خوابوں کو چھین لیتی ہے بلکہ ان کی زندگیوں پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔

اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے (یو این ایف پی اے) نے ایک مختصر فلم ’سلمیٰ‘ بنائی ہے، جو ان لاکھوں لڑکیوں کی کہانی بیان کرتی ہے جن کی زندگیاں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے متاثر ہوئیں۔

فلم ’سلمیٰ، خاموش چیخ‘ ایک دیہی علاقے کی کم عمر لڑکی کی کہانی پیش کرتی ہے، جسکے خواب جلد بازی میں شادی کی وجہ سے برباد ہوجاتے ہیں۔ یہ لڑکی ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں، صحت کے مسائل، سماجی دباؤ اور بدنامی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ 16 منٹ کی مختصر فلم محسن علی اور رابعہ قادر نے تحریر کی ہے جبکہ ابرار الحسن اور حنا امان نے اس کی پروڈکشن میں اہم کردار ادا کیا۔ محسن علی نے اس فلم کی ہدایت کاری بھی کی ہے اور سلمیٰ کا مرکزی کردار چائلڈ اسٹار مرحبا نور نے ادا کیا ہے۔

فلم میں خاص طور پر کم عمری کے حمل کے دوران لڑکیوں کو درپیش جسمانی اور ذہنی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، جیسے خون کی کمی، زچگی کی پیچیدگیاں، اور حتیٰ کہ موت کا خطرہ۔

یونیسف کے مطابق، دنیا بھر میں 20 فیصد لڑکیوں کی شادی نوعمری میں ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں 65 کروڑ خواتین ایسی ہیں جو 18 سال کی عمر سے پہلے بیاہی گئیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں 40 فیصد لڑکیوں کی شادی نوعمری میں ہوتی ہے۔

پاکستان میں 1 کروڑ 90 لاکھ خواتین کم عمری کی شادی کا شکار ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک تہائی لڑکیاں 18 سال کی عمر سے قبل ہی شادی کرتی ہیں، اور 54 فیصد اس عمر کو پہنچنے سے پہلے حاملہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ماں اور بچے کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

یو این ایف پی اے کے مطابق، کم عمری کی شادی لڑکیوں میں بچے کی قبل از وقت پیدائش، فسچولا، اور جنسی بیماریوں کے خطرات میں اضافہ کرتی ہے، جو بعض اوقات ان کی موت کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کی تعلیم و تربیت بھی رُک جاتی ہے، جو ان کی معاشرتی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین