وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت اور مسلم ورلڈ لیگ کی مشترکہ کاوش سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو گئی ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ’’مسلم معاشروں میں خواتین کی تعلیم :چیلنجز و مواقع ‘‘ ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ تعلیم کی دگرگوں صورت حال پر بین الاقوامی مکالمہ کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس بات پر فوکس کیا جارہا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ ناگزیر ہے۔
بلاشبہ آبادی کے نصف کو قومی ترقی کے دھارے میں لانے کے لئے انہیں تعلیم کے مرکزی دھارے میں بھی لانا ہو گا اور خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھولنا ہونگے۔ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ شہر اور دیہات کی تقسیم پر مشتمل ہے۔ 70فیصد سے زائدآبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور 30 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ رقبے کی تقسیم کا بھی یہی فارمولا ہے کہ شہر 30 فیصد اور دیہات 70 فیصد رقبہ پر مشتمل ہیں۔
پالیسی سازوں نے اول روز سے ہی دیہاتی زندگی کو نظر انداز کر کے شہری زندگی پر قومی وسائل صرف کئے۔ بڑی یونیورسٹیاں، بڑے بڑے کالجز تعلیمی و تربیتی ادارے شہروں میں بنائے گئے جبکہ دیہات کو نظر انداز کیا گیا۔ آج قومی شہرت کے حامل اعلیٰ تعلیمی ادارے لاہور، کراچی، اسلام آباد میں بکثرت ملیں گے بقیہ شہروں میں تعلیمی سہولیات برائے نام ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ایک تو دیہاتی آبادی کا رخ شہروں کی طرف ہوا جس سے شہروں میں صحت، تعلیم اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل نے جنم لیا، دوم دیہاتی آبادی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کم آمدنی والے خاندانوں کی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم ہو گئیں۔
آج اگر دیہات کی کوئی لڑکی لاہور یا اسلام آباد میں تعلیم حاصل کرنا چاہے تو سب سے پہلے اُسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں ادا کرنا ہونگی اُس کے بعد اُسے ہاسٹل کی مہنگی اور ناقص رہائش استعمال کرنا پڑے گی۔ سمسٹر فیس ، ماہانہ ہاسٹل اور یومیہ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات غریب خاندانوں تو کیا اب متوسط خاندانوں کی پہنچ سے بھی باہر ہو چکے ہیں۔ ان بھاری اخراجات کی وجہ سے دور دراز کے اضلاع سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔
اسے بھی پڑھیں مصر کے مفتی اعظم کا پاکستان میں جامعہ الازہر کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان
تاحال ایسی کوئی حکومتی پالیسی نظر سے نہیں گزری جس میں دور دراز کے شہروں سے تعلق رکھنے والی طالبات کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے عمارات تعمیر کی جائیں۔ سرکاری سیکٹر کی یونیورسٹیوں نے اگرچہ ہاسٹل کی سہولیات مہیا کررکھی ہیں تاہم پبلک سیکٹرز کی یونیورسٹیوں کی تعداد پرائیویٹ سیکٹر کی تعداد کے حساب سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں نے دھڑا دھڑ یونیورسٹیوں کو چارٹرز فراہم کئے جس کی وجہ سے جگہ جگہ یونیورسٹیاں بن گئیں اور اعلیٰ تعلیم نے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اگر آپ پرنٹ میڈیا پر نگاہ دوڑائیں تو آپ کو چھٹی والے دن یعنی اتوار کے روز اخبارات میں یونیورسٹیوں کے اشتہارات کی بھرمار ملے گی۔ پورےپورے صفحات یونیورسٹیوں کے اشتہارات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا رئیل سٹیٹ کے اشتہارات نے پرنٹ میڈیا کے صفحات پر قبضہ جما رکھا تھا ، لگتا ہے اب یونیورسٹیوں نے رئیل سٹیٹ کے کاروبار کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے یونیوسٹیوں کی ایڈمیشن کمپنیز کو کروڑوں روپے کے اخراجات سے چلایا جاتا ہے، ظاہر ہے پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے ہی مہنگی ترین مہمات ممکن ہو سکیں۔ اگر حکومتیں تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتیں تو پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹیاں، کالجز اور سکول کھمبیوں کی طرح نمو نہ پاتے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے معیار اور وصول کی جانے والی فیسوں پر بحث اس کے علاوہ ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں ڈگریاں فروخت کرنے والے مراکز بن کر رہ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ یونیورسٹیاں پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ کررہی ہیں ۔ بین الاقوامی کانفرنس اس صورت حال کا ضرور جائزہ لے کہ خواتین کے لئے ان کے گھر کے قریب ترین اعلیٰ تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کس طرح ممکن بنائی جا سکتی ہے اور تعلیم کو کس طرح سستا کیا جا سکتا ہے؟ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے اس کی دو وجوہات ہیں نمبر ایک غربت کی وجہ سے والدین اپنے معصوم بچوں کو جبری مشقت پر مجبور کرتے ہیں۔ دوم :تعلیم اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ غریب خاندان کتابیں اور فیسیں ادا کرنے کے قابل نہیں، تیسرا سرکاری شعبہ میں کام کرنے والے سکول بڑی تعداد میں بند ہو چکے ہیں، یہ خلاء پرائیویٹ سکول پُر کررہے ہیں، سرکاری سکول اگر ہر دیہات اور یونین کونسل میں دستیاب ہو تو پرائیویٹ سکول نہ کھلیں لیکن آئین کے آرٹیکل 25-A کی روشنی میں کسی بھی حکومت نے 6 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ اس آرٹیکل کی مذکورہ شق 2010ء میں پاس ہوئی لیکن تاحال اس پر صوبوں نے کوئی جامع قانون سازی نہیں کی۔ تعلیم کی ترقی پالیسی کا تسلسل چاہتی ہے مگر ہمارے ہاں کوئی بھی حکومت 5 سال پورے نہیں کر پاتی، حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی اس کی پالیسیاں بھی رخصت ہو جاتی ہیں۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی نے بھی یکم فروری2025ء کو قومی تعلیمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کررکھا ہے، اس کانفرنس میں ملک بھر سے ماہرین تعلیم شرکت کریں گے، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس قومی تعلیمی کانفرنس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس قومی تعلیمی کانفرنس کا بنیادی مقصد تعلیمی نظام اور مطلوبہ نتائج کے درمیان حائل خلیج کی نشاندہی اور حل کے لیے تجاویز مرتب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد مثبت کردار اور فکر کے حامل افراد تیار کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم یہ ضرورت پوری نہیں کر رہا۔ تعلیمی ادارے بھی مطلوبہ معیار کے مطابق کردار ادا نہیں کر پا رہے ،تعلیم کا مقصدجدت اور تخلیقیت سےبھرپورایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کی طرف سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے،انہوں نے ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی کی کہ سکولز بھی چل رہے ہیں،اساتذہ تنخواہیں اور مراعات بھی لے رہے ہیں، کتابیں خریدی اور بیچی جا رہی ہیں، ترقیاتی بجٹ رکھے اور استعمال ہو رہے ہیں، سکولز اور کلاس رومزکے اندر نصاب بھی پڑھایا جا رہا ہے لیکن اس ساری کاوشوں کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کیوں نہیں ہو رہے اور ایسا کیوں ہے؟یہی وہ چند سوالات ہیں جنھیں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔