سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس: کالا جادو، تعویز اور عمل کرنے والوں کی سزا پر بحث

کالے علم کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ان سے بھاری رقوم بٹوری جاتی ہیں۔سینیٹر پلوشہ

اسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں کالا علم، جادواور تعویز کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کے حوالے سے پیش کیے گئے بل پر تفصیلی بحث کی گئی۔ اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل سلیم نے کی۔

اجلاس کے دوران سینیٹر ثمینہ ممتاز کی جانب سے پیش کردہ بل پر غور کیا گیا، جس میں کالا علم کرنے والوں اور اس کی تشہیر کرنے والوں کو سات سال قید کی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کالا علم ہمارے معاشرے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال اٹھایا کہ کالے علم کی حدیں کیا ہیں اور یہ کہاں سے شروع ہوکر کہاں فتک جاتی ہیں؟ انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر ہفتے اخبارات میں کالے علم کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں اور یہ مسئلہ پیروں تک بھی جا سکتا ہے۔

ثمینہ ممتاز نے عرفان صدیقی کے سوالات پر کہا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہر طرح کی تنقید کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کالے علم کے نام پر انتہائی غیر قانونی اور مکروہ کام کیے جا رہے ہیں، جن میں بعض اوقات معصوم جانوں کی قربانی تک کی بات کی جاتی ہے۔

سینیٹر کامران نے اجلاس کے دوران دیوار چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی تالے لگے ہوئے ہیں، جس پر سینیٹر ثمینہ ممتاز نے واضح کیا کہ دیوار چین پر تالے لگنے کا کالے علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں رات کے وقت قبر پر جا کر مخصوص عمل کرنے کی کوئی تعلیمات نہیں ہیں، البتہ فاتحہ خوانی کی اجازت ہے۔

سینیٹر پلوشہ نے کہا کہ کالے علم کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ان سے بھاری رقوم بٹوری جاتی ہیں۔

عرفان صدیقی نے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک نیا قانون بنانے سے پہلے کالے جادو کی واضح تعریف کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

بحث کے دوران سینیٹر ممتاز ازہری نے کہا کہ انہیں اس معاملے پر کوئی خوف نہیں اور وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ سینیٹر فیصل سلیم نے بل کو ایک اچھا اقدام قرار دیا اور حکومت کے اس پر کیے گئے کام کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔

کمیٹی نے بحث کو آئندہ اجلاس تک مؤخر کرتے ہوئے اس اہم موضوع پر مزید گفتگو کی ضرورت پر زور دیا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین