ادویات کی قیمتوں میں اضافہ، غریب مریضوں کی مشکلات بڑھ گئیں

زیادہ تر مریض اب ادویات کو روزانہ استعمال کرنے کے بجائے وقفے سے لینے پر مجبور ہیں

کراچی میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے نے غریب مریضوں کے لیے علاج مزید مشکل بنا دیا ہے۔ روز مرہ میں استعمال ہونے والی دواؤں کی قیمتوں میں 2023 کے مقابلے میں 50 فیصد سے زائد اضافہ ہوا، جبکہ متعدد ادویات عام مریضوں کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔

ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے زیادہ تر مریض اب ادویات کو روزانہ استعمال کرنے کے بجائے وقفے سے لینے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں کل 900 ادویات کی فارمولیشن رجسٹرڈ ہیں، جن میں 400 زندگی بچانے والی (ایسنشل) اور 500 غیر اہم (نان ایسنشل) شامل ہیں۔ ایسنشل دواؤں کی قیمتوں میں سالانہ 7 فیصد تک اضافے کی اجازت ہے، جبکہ نان ایسنشل ادویات کی قیمتیں ڈی کنٹرول ہونے کے بعد فارما کمپنیاں اپنی مرضی سے بڑھا رہی ہیں۔

پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل عاصم جمیل صدیقی کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے اور مہنگائی کی وجہ سے فارما کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیا۔ ایسنشل اور نان ایسنشل دواؤں میں قیمتوں کے بڑھنے کے باوجود ضروری انجکشن اور دیگر دواؤں کی قلت بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی دوائیں اور ویکسین اب بھی مارکیٹ میں کم دستیاب ہیں اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔ غیر ملکی (ملٹی نیشنل) دوا ساز کمپنیوں کی قیمتیں مقامی کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ Non-Essential دواؤں کی قیمتوں پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے فارما کمپنیاں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا رہی ہیں، جس کے باعث عام مریضوں کے لیے دوائیں خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔

2024 میں مختلف ادویات کے قیمتوں میں تین بار اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جیسے:
Pheniramine Maleate انجکشن: 432 روپے سے بڑھ کر 1500 روپے ہوگیا۔
ملٹی وٹامنز کی گولیاں: 224 روپے سے بڑھ کر 351 روپے میں دستیاب ہوئیں۔
میٹوپرامائڈریزینیٹ کیپسول: 330 روپے سے بڑھ کر 665 روپے پر پہنچ گیا۔
کھانسی کا ایک شربت: 89 روپے سے بڑھ کر 130 روپے تک پہنچا۔
منہ کے چھالوں کی Myconazol جل: 215 روپے سے بڑھ کر 588 روپے کردی گئی۔

ریسرچ کے مطابق زیادہ تر ادویات کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران تین بار اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے غریب مریضوں نے اپنی دواؤں کا استعمال کم کر دیا ہے۔

ہول سیل مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے زبیر وہاب کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال دواؤں کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں، ہر 15 دن بعد مختلف دواؤں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ کچھ ادویات کی قیمتیں تو ایک ہی مہینے میں تین بار بڑھا دی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہر پیکٹ کی قیمت میں 300 سے 400 روپے تک اضافہ ہوا، جبکہ کچھ دواؤں کی قیمتوں میں 50 سے 75 فیصد تک کا بڑا اضافہ ہوا۔

زبیر وہاب کے مطابق 2024 میں ادویات کی قیمتیں دگنی ہو چکی ہیں، اور اس بڑھتی مہنگائی پر نظر رکھنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سردیوں کے موسم میں نزلہ، زکام، بخار اور الرجی کی دواؤں کی طلب بڑھتی ہے، اور یہی دوائیں مزید مہنگی ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی فارما کمپنیاں خود ہی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، Ibuprofen نامی دوا کی قیمت مئی 2024 میں 1063 روپے تھی، جو جولائی 2024 میں 1170 روپے اور ستمبر 2024 میں 1276 روپے کر دی گئی۔ صرف پانچ ماہ کے اندر اس دوا کی قیمت تین بار بڑھائی گئی۔

ایک سرکاری ملازم جاوید نے بتایا کہ بلڈ پریشر کی دوا کی قیمت میں بار بار اضافے نے اسے روزانہ کی خوراک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غلام رسول، جو امراض قلب اور شوگر کے مریض ہیں، نے شکایت کی کہ ان کے لیے اہم دواؤں کو خریدنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا، دوائیں مہنگی ہونے کی وجہ سے میں ڈاکٹروں کی تجویز کردہ خوراک نہیں لے سکتا۔ میرے محدود وسائل مجھے اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

مریضوں اور کیمسٹ کے نمائندوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو کم کیا جائے اور ان کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ کم آمدن مریض اپنی بیماریوں کا علاج کروا سکیں اور زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے بچ سکیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین