اسلام آباد: تحریک انصاف کے مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہونے اور وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کی دوبارہ پیشکش کو مسترد کیے جانے کے بعد حکومت نے بھی مذاکرات کا سلسلہ ختم کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق، حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کا عمل اختتام پذیر ہو چکا ہے۔
سعودی عرب کے معروف اخبار ’اُردو نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جس تیزی سے مذاکرات شروع کیے تھے، اسی تیزی سے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان کا بنیادی اور اصل مطالبہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی تھا۔ اس کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وزیراعظم صدر سے ان کی سزائیں معاف کرنے کی سفارش کریں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا عمل نہ تو معطل ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تعطل ہے، بلکہ یہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وزیراعظم کی پیشکش کے باوجود پی ٹی آئی کی جانب سے جو جواب آیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ آج 31 جنوری ہے اور پی ٹی آئی کی دی گئی ڈیڈ لائن بھی پوری ہو چکی ہے، جبکہ انہوں نے اپنی مذاکراتی کمیٹی بھی تحلیل کر دی ہے، جس سے واضح ہے کہ مذاکرات کا عمل ختم ہو چکا ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کچھ نکات ایسے تھے جن پر اعتماد سازی ممکن تھی، اور حکومت نے ان پر غور بھی کیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کو بھی فوراً مسترد نہیں کیا گیا تھا، تاہم قانونی ماہرین کا مؤقف تھا کہ جب معاملات عدالت میں زیر سماعت ہوں تو جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اس مسئلے کا سخت جواب دینے کے بجائے پی ٹی آئی کو اپنے قانونی ماہرین کے ساتھ آنے اور مذاکرات کے ذریعے درمیانی راستہ نکالنے کا موقع دینا چاہتی تھی۔ ہم نے اعتماد سازی کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کیے تھے، لیکن وہ فی الحال خفیہ ہیں، اور اگر انہیں سامنے آنا ہوتا تو پی ٹی آئی کے ذریعے ہی آتے۔ حکومت نے جو دستاویز تیار کی تھیں، وہ حتمی نہیں تھیں بلکہ ان میں رد و بدل کی گنجائش موجود تھی۔ اگر پی ٹی آئی مذاکرات جاری رکھتی تو ان کے لیے کئی اطمینان بخش امور شامل کیے جا سکتے تھے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سیاست میں مذاکرات، بات چیت اور افہام و تفہیم کا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ سڑکوں، جلسوں اور احتجاج کے راستے پر رہی ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر جیسے واقعات بھی ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ رہے ہیں۔ جب بھی مذاکرات ہوئے، وہ انہیں ادھورا چھوڑ کر نکل گئے۔
انہوں نے بتایا کہ 28 جنوری کی صبح تک حکومتی کمیٹی مذاکراتی عمل میں مصروف تھی، لیکن پی ٹی آئی نے چھ دن پہلے ہی اعلان کر دیا کہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق مذاکرات ختم کر دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوران عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور محمود الرشید کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اگرچہ یہ نام تحریری طور پر نہیں دیے گئے، لیکن زبانی طور پر کہا گیا کہ ان رہنماؤں کی رہائی میں سہولت فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ دیگر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا، جبکہ جوڈیشل کمیشن اور دیگر نکات محض ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس اپنی قیادت کی رہائی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ وزیراعظم سے درخواست کریں کہ وہ صدر سے ان کی سزائیں معاف کرنے کی سفارش کریں۔ شہباز شریف یہ سفارش صدر آصف زرداری کو دے سکتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ قیدیوں کی رہائی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں ایک منفرد عجوبہ ہے، جو ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ جیسے نظریے کی عملی تصویر بنی ہوئی ہے، اور یہ طرزِ سیاست افسوسناک ہے۔
پیکا ایکٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ کسی بھی قانون پر فیصلہ پارٹی کی سطح پر کیا جاتا ہے، تاہم انہوں نے وزیر قانون کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں اپنی رائے دی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں وسیع تر مشاورت ضروری تھی اور صحافیوں کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اس قانون کی اصل روح سے اتفاق کرتے ہیں، کیونکہ اس کا مقصد حقیقی صحافت اور فیک نیوز کے درمیان فرق کرنا ہے۔ اس قانون کی زد میں صرف وہ افراد آئیں گے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دوسروں کی گندی ویڈیوز بناتے ہیں، جبکہ حقیقی صحافی متاثر نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے پر وزیراعظم سے بات کر چکے ہیں اور اس قانون میں مناسب ترامیم کے ذریعے صحافیوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کریں گے تاکہ کسی بھی فریق کو شکایت کا موقع نہ ملے۔