کراچی، اپنی تاریخی ورثے اور منفرد پہچان کے باعث ہمیشہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شہر کا مشہور ’کالا پُل‘ اب 150 سال کا ہو چکا ہے؟
یہ قدیم اور معروف بالائی گزرگاہ 5 جنوری 1875 کو باقاعدہ طور پر کھولی گئی۔ مختلف ادوار میں اس پُل کے کئی نام رکھے گئے، جیسے ’ایاز سموں پُل‘، ’چاند بی بی پُل‘ اور ’عثمان غنی پُل‘، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’کالا پُل‘ ہی اس کی پہچان بن گیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب دیگر شہروں سے ریل گاڑیاں کراچی کی طرف آتی تھیں، تو مسافر یہاں پہنچ کر سمجھتے تھے کہ وہ منزل پر پہنچ چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس گزرگاہ کو ’کالا پُل‘ کا نام دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کالا پُل کے ساتھ ہی ’گورا قبرستان‘ بھی واقع ہے، جو برطانوی دور میں انگریز باشندوں کی آخری آرام گاہ تھا۔ یہ علاقہ دو مختلف ثقافتوں کا امتزاج پیش کرتا ہے—ایک طرف قدیم ’کالا پُل‘ اور دوسری طرف انگریزی دور کی یادگار ’گورا قبرستان‘۔
گزشتہ کچھ دہائیوں میں، جب کالا پُل کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا، تو اس کے متوازی ایک نیا پل تعمیر کیا گیا۔ مگر اس تبدیلی سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر وہ افراد جو روزانہ مزدوری یا ملازمت کے لیے یہاں سے گزرتے تھے۔
کالا پُل کی بندش نے نہ صرف عام شہریوں بلکہ اسپتال جانے والے مریضوں کو بھی متاثر کیا۔ جناح اسپتال اور پی این ایچ شفا اسپتال کے درمیان مریضوں کو لے جانے میں مشکلات پیدا ہوئیں کیونکہ متبادل راستے طویل اور وقت طلب تھے۔ مریضوں کی سہولت کے پیش نظر، بعد میں یہاں عارضی طور پر پل بنایا گیا تاکہ آمدورفت میں آسانی ہو سکے۔
اگرچہ کالا پُل کی 150 ویں سالگرہ باقاعدہ طور پر نہیں منائی گئی، مگر یہ گزرگاہ کراچی کی تاریخ اور شناخت کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ یہ پل نہ صرف شہر کے مختلف علاقوں کو جوڑتا ہے بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں کراچی کے شہریوں کی محنت اور جدوجہد کی بھی ایک علامت ہے۔