اسلام آباد:حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ کے شعبے میں عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مراعاتی پیکیج تیار کرلیا ہے۔
وزارتِ ہاؤسنگ کی 11 رکنی ٹاسک فورس نے اس حوالے سے 40 سے زائد اہم سفارشات اور تجاویز مرتب کی ہیں، جن کی بنیاد پر عوام کو مختلف سہولتیں فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
حکومت نے پراپرٹی اور ہاؤسنگ سیکٹر پر گزشتہ بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسوں پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے اور اس صنعت کو بحال کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ٹاسک فورس کی تیار کردہ سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کر دی گئی ہیں، جن پر غور و خوض کے لیے وزیراعظم نے 3 فروری کو ایک اہم اجلاس طلب کرلیا ہے۔
ٹاسک فورس نے تجویز دی ہے کہ رہائشی گھروں کی تعمیر کے لیے 3 منزلوں تک کی اجازت دی جائے، جبکہ پہلی مرتبہ گھر خریدنے والے افراد کو ٹیکس میں مکمل چھوٹ دی جائے۔
اس کے علاوہ، جائیداد کی خرید و فروخت پر عائد وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں پر نظرثانی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔پراپرٹی فروخت کرنے پر ٹیکس 4 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔خریدار پر عائد ٹیکس 4 فیصد سے گھٹا کر 0.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔پراپرٹی لین دین پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔کم آمدن والے افراد کے لیے ہاؤسنگ سبسڈی دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔
ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ پر مجموعی ٹیکس 14 فیصد سے کم کرکے 4 سے 4.5 فیصد تک کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ٹاسک فورس نے رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو وزارت داخلہ سے نکال کر وزارت ہاؤسنگ کے تحت کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
اس کے ساتھ گھروں کے لیے آسان قرضہ اسکیم دوبارہ بحال کرنے اور ہاؤسنگ منصوبوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
وزیراعظم کو گھروں کی تعمیر کے لیے 5 سے 20 سال کی مدت تک قرض فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ہاؤسنگ کے لیے قابلِ ٹیکس آمدن کی حد 5 کروڑ روپے تک مقرر کرنے (یا اس حد تک ٹیکس چھوٹ دینے) کی سفارش بھی شامل ہے۔