کراچی:قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض سمیت 33 افراد کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق عدالت نے تمام ملزمان کو 25 فروری کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں، جن میں بحریہ ٹاؤن کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں۔
نیب کی جانب سے یہ ریفرنس بحریہ ٹاؤن پر سرکاری زمین پر غیر قانونی قبضے کے الزامات کے تحت دائر کیا گیا ہے۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق، بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے جمع کرانے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت سے زمین کا نیا سروے کرانے کی ہدایت کی گئی تھی، تاہم ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
21 جنوری 2025 کو نیب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکا دہی اور مالیاتی فراڈ کے متعدد کیسز زیرِ تفتیش ہیں۔ نیب نے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں، کیونکہ حکومت قانونی طریقہ کار کے تحت ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات کی حکومت سے رابطے میں ہے۔
نیب کے مطابق، ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں سرکاری اور نجی زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بغیر قانونی منظوری کے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا کر عوام سے اربوں روپے بٹورے۔
نیب کا کہنا ہے کہ ملک ریاض نیب اور عدالت دونوں کو مطلوب ہیں، اور ادارہ بحریہ ٹاؤن کے کئی اثاثے پہلے ہی ضبط کر چکا ہے۔ مزید قانونی کارروائی کے ذریعے مزید جائیدادیں بھی ضبط کی جائیں گی۔
نیب ترجمان کے مطابق، ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور انہیں عدالتی مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے دبئی میں ایک نیا لگژری اپارٹمنٹ پروجیکٹ شروع کیا ہے، جس میں عوام کو سرمایہ کاری سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
28 جنوری کو نیب نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک کو پاکستان واپس لانے کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطہ کیا اور ان کی حوالگی کے عمل کا آغاز کر دیا۔
گزشتہ سال مئی میں ملک ریاض نے ایک مبہم بیان میں کہا تھا کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کسی خاص سیاسی سمت اختیار کریں، اور انہیں مالی نقصانات کا سامنا بھی ہے، لیکن وہ کسی کے لیے سیاسی مہرہ نہیں بنیں گے۔
پراپرٹی ٹائیکون پر پہلے بھی کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں، جن میں ان پر مختلف طریقوں سے زمینیں حاصل کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانچ سال قبل بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے سندھ حکومت کو واجب الادا رقم ادا کرنے کا حکم دیا تھا، جو تاحال مکمل ادا نہیں کی گئی۔