پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اسلام آباد کے علاقے میں کم آمدنی والے افراد کے لیے شروع کیا گیا رہائشی منصوبہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے رکاوٹوں کا شکار ہو گیا اور اب ویران نظر آ رہا ہے۔
2021 میں پی ٹی آئی حکومت نے اسلام آباد کے علی پور فراش میں کم آمدنی والے افراد کے لیے فلیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا، جو اب تعطل کا شکار ہے۔
اس وقت کی حکومت نے ’نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم‘ کے تحت 31 ارب روپے کی لاگت سے فراش ٹاؤن میں چار ہزار فلیٹس بنانے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے 2400 فلیٹس مکمل ہو چکے ہیں۔
پلان کے مطابق 2000 فلیٹس کم آمدنی والے افراد کے لیے اور 400 فلیٹس کچی آبادی کے مکینوں کو دیے جانے تھے۔
پہلے فیز میں تعمیر کیے گئے فلیٹس کا سائز 779 اسکوائر فٹ تھا، اور انہیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے تحت بنایا گیا۔ سی ڈی اے نے ان فلیٹس کی قیمت 40 لاکھ روپے مقرر کی تھی، جو قسطوں میں ادا کی جانی تھی۔
دوسرے فیز میں 1441 اسکوائر فٹ کے 1876 فلیٹس کمرشل بنیادوں پر فروخت کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
یہ منصوبہ اپریل 2022 میں اس وقت سست روی کا شکار ہونا شروع ہوا جب عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی۔
ابتدا میں کام کی رفتار کم ہوئی اور پھر گزشتہ ایک سال سے تعمیرات مکمل طور پر رک چکی ہیں۔
منصوبہ کیوں رکا؟
![اربوں کے کھنڈر: اسلام آباد میں بڑا تعمیراتی منصوبہ ویران بستی میں تبدیل ابتدا میں کام کی رفتار کم ہوئی اور پھر گزشتہ ایک سال سے تعمیرات مکمل طور پر رک چکی ہیں۔](https://dailytehreek.pk/wp-content/uploads/2025/02/نیا-پاکستان-سکیم.jpg)
اس حوالے سے جب سی ڈی اے سے رابطہ کیا گیا تو ڈائریکٹر ہاؤسنگ فیصل زمان نے وضاحت کی کہ نیلور پروجیکٹ رکنے کی سب سے بڑی وجہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی طرف سے اضافی ادائیگیوں کا مطالبہ ہے، جو انہوں نے 2022 میں مہنگائی میں اضافے کے باعث کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے نے کبھی ایف ڈبلیو او کو کام روکنے کا نہیں کہا بلکہ انہیں کئی مرتبہ منصوبہ جاری رکھنے کی ہدایت دی گئی، کیونکہ انہیں طے شدہ لاگت میں ہی یہ منصوبہ مکمل کرنا تھا۔
سال 2023 میں سی ڈی اے نے ان فلیٹس کو اوورسیز پاکستانیوں کے لیے 30 ہزار ڈالر میں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔
درخواست دینے کے لیے 50 ڈالر فیس مقرر کی گئی، جس پر 2000 فلیٹس کے لیے 6000 درخواستیں موصول ہوئیں۔
تاہم، اس اقدام کے خلاف مئی 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ منصوبہ کم آمدنی والے افراد کے لیے تھا، مگر اسے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مختص کر کے اس کی اصل روح تبدیل کر دی گئی جو غیر قانونی ہے۔
قانونی مسائل کے باعث سی ڈی اے نے یہ منصوبہ دوبارہ کم آمدنی والے افراد کو دینے کا فیصلہ کیا اور موجودہ چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے اوورسیز پاکستانیوں کو رقم واپس کرنے کی ہدایت دی۔
فیصل زمان کے مطابق درخواست گزاروں کو بڑی حد تک رقم واپس کی جا چکی ہے۔
فیصل زمان نے مزید وضاحت کی کہ یہ منصوبہ سی ڈی اے نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی درخواست پر شروع کیا تھا، جس کے تحت اتھارٹی نے سی ڈی اے کو رقم ادا کرنی تھی۔
ان کے مطابق سی ڈی اے اب تک 2000 فلیٹس پر 6 ارب روپے خرچ کر چکی ہے، مگر اسے تاحال کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔
سی ڈی اے نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو آگاہ کیا ہے کہ ترمیم شدہ نرخوں کے مطابق سی ڈی اے کو 13 ارب روپے ملنے ہیں۔
فراش ٹاؤن کا یہ منصوبہ ویران شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
چار منزلہ درجنوں عمارتیں کھڑی ہیں جن کا گری سٹرکچر مکمل ہے، مگر مزید کوئی کام نہیں ہو رہا۔
وہاں نہ مزدور نظر آتے ہیں، نہ مشینری چل رہی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق گزشتہ ایک سال سے یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا۔
عمارتوں کے اندر تزئین و آرائش کا کام باقی ہے، جبکہ صرف ایک عمارت مکمل ہوئی ہے، جس میں دیگر عمارتوں کے لیے سینکڑوں دروازے پڑے ہیں۔
ان عمارتوں کی حفاظت کے لیے ایف ڈبلیو او کے ملازمین تعینات کیے گئے ہیں، مگر منصوبے کی بحالی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔