بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی شدت اختیار کر گئی، مشتعل ہجوم نے شیخ مجیب الرحمٰن کا تاریخی گھر نذر آتش کر دیا
بنگلہ دیش میں جاری سیاسی بحران کے دوران ہزاروں مظاہرین نے ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کے تاریخی گھر کو آگ لگا دی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سوشل میڈیا پر عبوری حکومت کے خلاف مزاحمت کی اپیل کی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ لاٹھیوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے لیس مظاہرین آزادی کی یادگار اور تاریخی گھر کے اطراف جمع ہوئے۔ کچھ افراد بھاری مشینری لے کر عمارت کو منہدم کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
یہ احتجاج شیخ حسینہ واجد کے مقررہ آن لائن خطاب کو متاثر کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا، جسے مظاہرین نے نو تشکیل شدہ عبوری حکومت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ احتجاج میں شریک افراد، جن میں اکثریت ‘اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن’ نامی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھتی تھی، حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ اگست 2024 کے بعد سے بنگلہ دیش میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہونا پڑا تھا۔ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت کو ملک میں استحکام قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مشتعل ہجوم کی جانب سے حسینہ واجد کی حکومت کی علامتوں پر حملے کیے گئے، جن میں شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائش گاہ بھی شامل ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا گیا تھا، اور 1975 میں اسی مقام پر شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے اہلِ خانہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔
حسینہ واجد نے اپنے ردعمل میں کہا کہ "یہ لوگ عمارت کو مسمار کر سکتے ہیں، لیکن تاریخ کو مٹا نہیں سکتے، اور تاریخ ہمیشہ اپنا بدلہ لیتی ہے۔” انہوں نے عبوری حکومت پر غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضے کا الزام عائد کرتے ہوئے عوام سے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔
مظاہروں کے پس پردہ طلبہ کی تحریک نے ملک کے 1972 کے آئین میں تبدیلی کی حمایت کی ہے، جسے وہ حسینہ واجد کے والد کی وراثت کی علامت سمجھتے ہیں۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ ملک کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ بنگلہ دیش کو ایک نئے نظام کی طرف گامزن کیا جا سکے۔
ملک میں جاری احتجاج اور بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے پیش نظر بنگلہ دیش کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اور عبوری حکومت کو داخلی استحکام برقرار رکھنے کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔