اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر عدالت عظمیٰ میں ججز کی تقرری مؤخر کرنے اور آئینی ترمیم کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ خط جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے، جس میں ججز کی تعیناتی سے متعلق قانونی پیچیدگیوں اور آئینی معاملات پر تفصیلی نکات اٹھائے گئے ہیں۔
خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا معاملہ 26ویں آئینی ترمیم کیس سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ اس کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ بنانے کی سفارش کر سکتا ہے۔ خط میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اگر نئے ججز تعینات کر دیے گئے تو فل کورٹ کی تشکیل پر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین ججز کی ٹرانسفر کے بعد آئینی تقاضے کے مطابق انہیں دوبارہ حلف لینا ضروری تھا۔ خط میں اس امر پر زور دیا گیا کہ چونکہ آئینی ترمیم کا کیس اس ترمیم کے نتیجے میں بننے والے آئینی بینچ کے زیر سماعت ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسے فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر کیا جائے۔
چاروں ججز نے اپنے خط میں نشاندہی کی کہ ماضی میں بھی آئینی ترمیم سے متعلق مقدمات کو فل کورٹ میں سننے کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم اس کیس کو تاخیر سے مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ آئینی ترمیم کیس ابھی زیر سماعت ہے، لیکن اس کے فیصلے سے قبل ہی جلدبازی میں ججز کی تعیناتی کے لیے اجلاس بلا لیا گیا ہے، جو عوامی اعتماد پر اثر ڈال سکتا ہے۔
خط میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر آئینی بینچ فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کر لیتا ہے، تو اس بینچ کی تشکیل کون کرے گا؟ اور کیا اس میں وہ ججز شامل ہوں گے جو ترمیم کے تحت مقرر کیے گئے ہیں؟ اگر نئے ججز کو فل کورٹ میں شامل نہیں کیا جاتا تو فل کورٹ کی حیثیت پر سوالات اٹھیں گے، اور اگر شامل کیا جاتا ہے تو اس پر بھی اعتراضات ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ان چاروں ججز نے اپنے خط میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوامی سطح پر موجودہ عدالتی صورتحال کو "کورٹ پیکنگ” یعنی عدالت میں مخصوص تقرریوں کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کرنے کے تاثر سے جوڑا جا رہا ہے، جس کے باعث عدلیہ کی غیر جانبداری اور وقار کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔