اسلام آباد: حکومت نے ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جو اپنی ظاہر کردہ آمدن سے زیادہ مالیاتی ٹرانزیکشنز کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بینکوں کی مدد لینے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بینکوں کے ساتھ ٹیکس دہندگان کی آمدن اور کاروباری ٹرن اوور کا ڈیٹا شناختی کارڈ کی بنیاد پر شیئر کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص کی مالیاتی ٹرانزیکشنز اس کے ایف بی آر کے ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتیں تو بینک متعلقہ تفصیلات ایف بی آر کو فراہم کریں گے۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق بینکوں کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ ٹرانزیکشنز کو روکنے کے بجائے ان کی تفصیلات ایف بی آر کو رپورٹ کریں، جبکہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ یا ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کردہ آمدن سے زائد لین دین پر بھی رپورٹنگ لازمی ہوگی۔
اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما بلال اظہر کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار مکان خریدنے کے لیے نان فائلر کو اجازت دی گئی ہے، جبکہ وہ افراد جو اپنے ٹیکس گوشوارے میں آمدن ظاہر کرتے ہیں، وہ نئی جائیداد خرید سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹیکس دہندہ اپنے والدین یا بچوں کے لیے بھی جائیداد خریدنے کا مجاز ہوگا، جبکہ خریداری نقد رقم یا مساوی اثاثوں کی بنیاد پر ممکن ہوگی۔
اس پر چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے سوال اٹھایا کہ ان اثاثوں کی وضاحت قانون میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ کمیٹی کی تجویز پر شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اثاثوں کی تعریف کو قانون میں شامل کیا گیا ہے۔