بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سرکاری افسران کے اثاثوں کی ڈیکلیئریشن کے لیے مزید مہلت دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے، جس کے بعد حکومت نے اس حوالے سے مشاورت تیز کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے تکنیکی وفد کی کابینہ ڈویژن، وزیراعظم آفس، وزارت خزانہ اور وزارت قانون کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں آئی ایم ایف نے واضح کیا کہ اثاثے ظاہر کرنے کے عمل میں مزید تاخیر ناقابل قبول ہوگی۔
دوسری جانب حکومت نے سول سرونٹ ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے اور طے پایا ہے کہ رواں ماہ کے دوران اس کا ترمیمی مسودہ آئی ایم ایف کو فراہم کیا جائے گا۔ تاہم، اثاثوں کی تفصیلات کے حوالے سے قانون سازی کا عمل فروری کے بعد ہی مکمل ہو سکے گا۔
ذرائع کے مطابق، مجوزہ ترامیم کے تحت سرکاری افسران کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے اہلِ خانہ کی آمدنی کے ذرائع اور اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس میں بچوں کے تعلیمی اداروں کی معلومات بھی شامل کی گئی ہیں، جبکہ پاور آف اٹارنی سے متعلق تفصیلات فراہم کرنا بھی لازمی ہوگا۔
وزارت خزانہ کے حکام نے آئی ایم ایف وفد سے درخواست کی ہے کہ سرکاری افسران کے مالیاتی معاملات سے متعلق معلومات کی عوامی سطح پر دستیابی میں کچھ نرمی برتی جائے، تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ وہ طے شدہ شرائط کے مطابق مقررہ وقت میں تمام بینچ مارکس مکمل کرے۔ حکومت کے لیے اب یہ چیلنج بن چکا ہے کہ وہ ان اصلاحات کو مقررہ مدت میں عملی جامہ پہنائے اور شفافیت کے تقاضے پورے کرے۔