اسلام آباد:پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر نے محکموں کی جانب سے محکمانہ آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس نہ بلانے پر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور واضح ہدایت دی کہ جو وزارت ڈی اے سی اجلاس نہیں کرے گی، وہ پی اے سی اجلاس میں بھی شرکت نہ کرے۔
تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں مختلف محکموں کے مالیاتی معاملات، آڈٹ اعتراضات اور کرپشن سے متعلق تفصیلات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ پی اے سی دور میں 1.6 ٹریلین روپے کی ریکوری ہوئی تھی، جبکہ اب تک 33 ہزار 318 آڈٹ اعتراضات التوا میں ہیں۔ موجودہ پی اے سی کو 36 ہزار آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینا ہے، اور اس کے تحت 2.5 ٹریلین روپے کی ریکوری کی جا سکتی ہے۔ تاہم، 20 مقدمات اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
اجلاس کے دوران پی اے سی کی ذیلی کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی غور کیا گیا۔ کمیٹی کے رکن سید حسین طارق نے تجویز دی کہ ہر ذیلی کمیٹی کو تین سے چار وزارتوں کی ذمہ داری دی جائے، تاکہ کام زیادہ مؤثر طریقے سے انجام دیا جا سکے۔ رکن کمیٹی ملک عامر ڈوگر نے نشاندہی کی کہ پہلے ہی ایک سال کی تاخیر ہو چکی ہے، جس کے باعث بیک لاگ میں اضافہ ہو گیا ہے اور کام کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔
اسی دوران، کمیٹی کے رکن ثناء اللہ مستی خیل نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال ایک ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، جس پر شرکاء نے تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے کہا کہ آڈٹ اعتراضات کے بیک لاگ کو ختم کرنے کے لیے ہر وزارت کو ہر ماہ کم از کم دو بار محکمانہ آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس منعقد کرنے ہوں گے۔ انہوں نے واضح طور پر ہدایت دی کہ جو وزارت ڈی اے سی اجلاس نہیں کرے گی، وہ پی اے سی کے اجلاس میں بھی شرکت نہ کرے۔
اجلاس میں آڈیٹر جنرل نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا کام رپورٹ تیار کرنا ہے، جبکہ سزا اور جزا کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ قانون سازی اور اصلاحات کرنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔
بعد ازاں، اجلاس میں قومی ورثہ اینڈ کلچر ڈویژن کی مالی گرانٹس اور آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے متعلقہ آڈٹ اعتراضات کو موخر کر دیا۔ وزارت صحت کے آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سب سے زیادہ آڈٹ اعتراضات وزارت صحت سے متعلق ہیں۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ درکار ریکارڈ تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم، چیئرمین کمیٹی نے ریکارڈ کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریکارڈ پیش نہ کیا گیا تو انہیں کسی سیکریٹری کو اجلاس سے باہر نکالنا پڑے گا۔
اجلاس میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کے سینٹرل ریسرچ فنڈ کے 5.9 ارب روپے کے عدم استعمال کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اس موقع پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ یہ رقم 2012 سے جمع ہو رہی ہے، اور اس کے استعمال کے قواعد پہلے سے موجود ہیں۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ چھ ارب روپے پرائیویٹ بینک میں رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ رقم حکومتی بینک میں کیوں جمع نہیں کرائی گئی؟ حکام نے جواب دیا کہ اب تمام فنڈز نیشنل بینک میں منتقل کیے جا رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے وزارت صحت کو اس مسئلے کے حل کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ معاملے کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔