سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر سماعت جاری ہے، جس میں ججز اور وکلاء کے درمیان اہم قانونی نکات پر تبادلہ خیال ہوا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں بھی سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں لکھی۔ دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجا نے بین الاقوامی قوانین اور شفاف ٹرائل کے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ سماعت کے دوران ججز اور وکلاء کے درمیان دلچسپ مکالمے بھی ہوئے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں یہ درج نہیں کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
9 مئی کے ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ گیارہ بجے تک اپنے دلائل مکمل کر لیں گے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آدھے گھنٹے میں مکمل کر سکیں تو بہتر ہوگا۔ سلمان اکرم راجا نے مؤقف اختیار کیا کہ جو کہنا چاہتا ہوں کہنے دیں تاکہ دلائل بروقت مکمل کر سکوں۔ انہوں نے کہا کہ سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کر کے ان کا کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے استدلال دیا کہ سویلینز کا فوجی عدالت میں ٹرائل شفاف عدالتی عمل کے عالمی اصولوں کے منافی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت عدالتوں میں ٹرائل آزادانہ، شفاف اور کھلی عدالت میں ہونا چاہیے، جبکہ ملٹری ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف بھی اپیل کا حق دیا جانا ضروری ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یورپی عدالت کے ایک فیصلے کی وجہ سے کئی ممالک کو اپنے کورٹ مارشل قوانین میں تبدیلیاں کرنا پڑیں۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کسی ملک میں بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹرائل شفاف نہیں رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید پوچھا کہ اگر کوئی ملک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کچھ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری لازمی ہوتی ہے، جبکہ کچھ اختیاری ہوتے ہیں۔ شفاف ٹرائل کے اصول کو آئین میں آرٹیکل 10 اے کے ذریعے شامل کیا گیا جو کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے پھر اپنے ریمارکس دہرائے کہ بین الاقوامی اصولوں میں یہ واضح نہیں کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب میں کہا کہ برطانیہ میں ملٹری ٹرائل آزاد ججز کرتے ہیں، نہ کہ فوجی حکام۔ انہوں نے مزید وضاحت دی کہ ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول موجود نہیں تھا، پہلے ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار بھی فوجداری مقدمات کی سماعت کرتے تھے، تب کہا گیا تھا کہ اگر ڈی سی ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل بھی کر سکتا ہے۔
سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ تمام ممالک اقوام متحدہ کو اپنی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹس پیش کرتے ہیں، جس کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی ان رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات جاری کرتی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان کے فوجی نظام انصاف پر سوالات اٹھائے اور سویلینز کے کورٹ مارشل پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہیں، اس کمیٹی نے حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت فراہم کرنے کا کہا۔ یورپی کمیشن نے بھی 9 مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کے کورٹ مارشل پر اعتراض کیا ہے، کیونکہ پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس بھی یورپی یونین کی طرف سے دیا گیا ہے۔
دوران سماعت سلمان اکرم راجا اور جسٹس نعیم اختر افغان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ میں ایک فوجی فیڈلی کا کورٹ مارشل ہوا تھا، جسے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے کالعدم قرار دے دیا۔ فیڈلی ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اس نے فائرنگ کی تھی، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے تبصرہ کیا کہ فیڈلی کی فائرنگ سے ایک ٹی وی بھی ٹوٹا تھا، اور 9 مئی کے واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا تھا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ انہوں نے نو مئی کو ٹی وی توڑنے والے شخص سے ملاقات کی، وہ شرمندہ تھا اور چار جماعتیں پاس بے روزگار شخص تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے وکیل کو انفرادی باتوں سے گریز کرنے کا کہا، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزاحیہ انداز میں پوچھا کہ کیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات کی؟ جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، مگر وہ نو مئی کو کرکٹ کھیلنے نہیں گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ وہ قانون جس کے تحت کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دیا گیا، کیا وہ عدالت کے سامنے موجود ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ وہ قانون ریکارڈ پر لے آئیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا یہ قانون صرف کلبھوشن کے لیے بنایا گیا تھا؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ایسے جاسوس، جنہیں عالمی عدالت انصاف سے اپیل کی اجازت حاصل ہو، انہیں اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر استفسار کیا کہ کیا یہاں اور بھی کوئی کلبھوشن موجود ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کلاسیفکیشن کی اجازت موجود تھی۔ سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔