کراچی:شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبسٹ) میں "پائیدار مستقبل کے لیے شمولیت اور روشن خیالی کو فروغ دینے” کے موضوع پر دو روزہ تیسری عالمی کانفرنس (جی سی او آر ای ایس ایس) 2025 جمعہ کے روز شروع ہوئی۔ اس کانفرنس میں تعلیم، پرورش، زبان اور مصنوعی ذہانت (AI) جیسے موضوعات پر اہم مباحثے اور تحقیقی پریزنٹیشنز پیش کی گئیں۔
بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس اینڈ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مظہر علی ڈوٹیو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھی زبان ہزاروں سال پرانی ہے اور اس کی ایک منفرد ثقافت اور شناخت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی زبانوں میں کام کرتے ہیں، اور مصنوعی ذہانت کے باعث اب سندھی سیکھنے کے لیے بھی بہترین مواقع دستیاب ہیں۔
الیکسا ٹرانسلیشنز کے سینئر این ایل پی سائنسدان ڈاکٹر تاثیر احمد نے بھی اس نکتے پر روشنی ڈالی کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی نے انٹرنیٹ پر زبانوں کی رسائی کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید ماڈلز میں زبان کی شناخت کا آپشن موجود ہے، جس کی بدولت اب یہ نہ صرف اردو بلکہ سندھی میں بھی جواب دے سکتا ہے۔
ادب سے وابستہ مصنف ڈاکٹر آفتاب ابڑو نے کہا کہ سندھی کے مقابلے میں اردو کو زیادہ معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے، کیونکہ اس کی کوئی مستقل گرامر نہیں ہے۔ ان کے مطابق اردو مختلف زبانوں کے الفاظ کے امتزاج سے بنی ہے اور ہر فرد اس کا اپنا ورژن بول رہا ہے، جبکہ قومی زبان کے معیار اور مستقبل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
اس سے قبل، ایک اور پینل ڈسکشن میں مساوی تعلیمی نظام کی تعمیر میں تشخیص کے کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس نشست میں ادارہ تعلیم و آگہی کی چیف ایگزیکٹیو بیلا رضا جمیل، سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر شاہ پارہ رضوی، ڈیف ریچ کے ہارون اوسن اور کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ریکارڈو اسبیٹس نے اپنی آراء پیش کیں۔
اختتامی سیشن میں جنوبی افریقہ کی نارتھ ویسٹ یونیورسٹی کی ڈاکٹر اینا میری پیلسر اور امریکا کی آئیووا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کولون کیرولین نے آن لائن خطاب کیا اور اپنی تحقیق پیش کی۔
سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے ایک پینل مباحثے میں ڈیجیٹل دور میں نوعمر بچوں کی پرورش کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلے مختلف اقسام کی لت کا سامنا تھا، مگر اب اسمارٹ فون کی لت، سائبر ہراسانی اور آن لائن گیمز جیسے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین، اساتذہ اور بچوں میں اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ ڈیجیٹل دور کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔
ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے مزید کہا کہ کئی ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے یا آن لائن گیمز کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح کے قوانین بچوں کی ذہنی صحت اور تعلیمی سرگرمیوں پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی (اے کے یو) میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیات کی عبوری چیئر، ڈاکٹر نرگس اسد نے ڈیجیٹل مصروفیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں اسمارٹ فونز اور دیگر ٹیکنالوجی اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگ اس میں کھو کر اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ والدین خود بچوں کو کم عمری سے ہی ٹیکنالوجی کا عادی بنا دیتے ہیں، جس کے منفی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، "اسکرین ایک بے بی سیٹر بن گئی ہے۔ والدین بچوں کو روتا دیکھ کر انہیں کھلونے دینے کے بجائے اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ تھما دیتے ہیں، جس سے وہ کم عمری میں ہی ڈیجیٹل دنیا کے عادی ہو جاتے ہیں۔”
ڈاؤ میڈیکل کالج اور ڈاکٹر رتھ فاؤ سول اسپتال کراچی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ، ڈاکٹر واشدیو امر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ والدین اب بچوں سے بات چیت کرنے کے بجائے موبائل فونز میں مصروف رہتے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ، "یہ صرف بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا معاملہ نہیں، بلکہ ان کے ساتھ معیاری وقت گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جذباتی اور ذہنی طور پر بہتر نشوونما حاصل کر سکیں۔”
اقرا یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر، ڈاکٹر عفت سلطانہ، جو ڈاؤن سنڈروم کے شکار ایک بچے کی والدہ بھی ہیں، نے اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی بیٹی کا اسکرین ٹائم زیادہ ہے، لیکن اس کی بدولت وہ اطالوی اور جرمن زبانیں سیکھ چکی ہے۔
انہوں نے کہا، "میں اسے روک نہیں سکتی، کیونکہ وہ انٹرنیٹ کو سیکھنے کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن میں نے اس کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس اپنے ای میل سے منسلک کر دیے ہیں تاکہ اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکوں۔”
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ کی ماہر نفسیات، ڈاکٹر عروسہ طالب نے سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسان فطری طور پر ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جن سے اسے دور رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا، "سوشل میڈیا پر عجیب و غریب رویے آپ کی پوسٹس کو وائرل کر سکتے ہیں، کیونکہ منفی مواد تیزی سے پھیلتا ہے، جب کہ مثبت مواد کو مقبول ہونے میں وقت لگتا ہے۔ بچوں کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے کھلی بات چیت اور خود آگاہی کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔”