کنکریٹ کا بے جان جنگل

کبھی شہر سرسبز راستوں اور سایہ دار درختوں سے آباد ہوتے تھے، جہاں تازہ ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ زندگی کی علامت تھی

تحریر: [غلام مرتضی]

شہر جب پھیلتے ہیں تو درخت سمٹ جاتے ہیں، اور جب درخت ناپید ہوتے ہیں تو فطرت کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ ہم نے ترقی کی دوڑ میں فلک بوس عمارتیں، کشادہ سڑکیں اور جدید تجارتی مراکز تو بنا لیے، مگر اس سب کے بدلے قدرت کے حسین ورثے، درختوں کو بے دردی سے ختم کر دیا۔ کبھی شہر سرسبز راستوں اور سایہ دار درختوں سے آباد ہوتے تھے، جہاں تازہ ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ زندگی کی علامت تھی، مگر آج یہی شہر کنکریٹ کے بے جان جنگل میں بدل چکے ہیں۔

درخت صرف سبزہ فراہم نہیں کرتے بلکہ ہوا کو صاف کرنے اور درجہ حرارت کو معتدل رکھنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر جب شہروں میں درختوں کی جگہ بلند و بالا عمارتوں نے لے لی، تو گرمی کی شدت میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔ سورج کی تپش کنکریٹ پر پڑ کر اسے بھٹی میں بدل دیتی ہے، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہری علاقوں میں گرمی دیہی علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ یہی بے دریغ درختوں کی کٹائی اور بے ہنگم شہری ترقی ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے فضا کو صاف کرتے ہیں، مگر جب ان کی تعداد کم ہونے لگی، تو فضائی آلودگی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ بڑھتی ہوئی گاڑیوں، فیکٹریوں کے دھوئیں اور کنکریٹ کے پھیلاؤ نے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

کلائمیٹ چینج کے اثرات میں سب سے خطرناک پہلو گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔ جب عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے تو قطبی علاقوں اور پہاڑوں پر موجود برف تیزی سے ختم ہونے لگتی ہے۔ پاکستان میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے گلیشیئرز عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہے ہیں، جس کے باعث سیلاب، خشک سالی اور پانی کی قلت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اگر ہم نے ماحولیاتی توازن بحال نہ کیا تو آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

درختوں کی کمی نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثر ڈال رہی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ سبزہ اور درخت ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں، مگر جب شہروں میں سبزہ ختم ہو رہا ہے، تو ذہنی دباؤ اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ درخت بارشوں کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زمین کو بنجر ہونے سے بچاتے ہیں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ بناتے ہیں۔ مگر جب شجرکاری کی جگہ کنکریٹ نے لے لی، تو بارشیں کم ہو گئیں اور زمین خشک ہونے لگی۔

حالات اب بھی قابو میں آ سکتے ہیں اگر ہم قدرتی وسائل کو بچانے کی کوشش کریں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک شہری جنگلات کے منصوبے اپنانے میں مصروف ہیں۔ جاپان میں "مائیاواکی فارسٹ” کا ماڈل کامیابی سے نافذ کیا گیا، جہاں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگا کر شہروں میں سبزہ بحال کیا گیا۔ پاکستان میں بھی کچھ شہروں میں یہ ماڈل متعارف کروایا گیا، مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

ہمیں شہروں میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم شروع کرنی ہوگی، اور حکومت کو ایسے منصوبے متعارف کروانے ہوں گے جو شہری علاقوں میں درختوں کی بحالی کو یقینی بنائیں۔ صرف درخت لگانا کافی نہیں، بلکہ ان کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی ضروری ہے تاکہ وہ پروان چڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ، درختوں کی کٹائی کے خلاف آواز اٹھانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ جب بھی کسی ترقیاتی منصوبے کے تحت درختوں کو کاٹا جائے، تو عوام کو چاہیے کہ وہ احتجاج کریں اور متبادل سبزہ کاری کا مطالبہ کریں۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور قدرت ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ وہ ترقی جو فطرت کی قربانی دے کر حاصل کی جائے، وہ آخر میں ہمیں ہی نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک بہتر اور صحت مند ماحول دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی سے درختوں کی بحالی پر کام کرنا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم قدرت کے اس قیمتی تحفے کو بچانے کے لیے متحد ہو جائیں، تاکہ ہمارے شہر صرف کنکریٹ کے جنگل نہ بنیں، بلکہ قدرت کے حسن سے بھرپور رہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین