یوکرینی صدر کی ٹرمپ کو پیشکش اگر نیٹو میں شامل کریں تو عہدہ چھوڑ دوں گا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات سے پہلے ان سے ضرور ملیں۔زیلنسکی کی درخواست

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حیران کن پیشکش کی ہے کہ اگر ان کے ملک کو نیٹو میں شامل کیا جائے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے درخواست کی ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات سے پہلے ان سے ضرور ملیں۔ زیلنسکی کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے اور یوکرین کی سلامتی کے لیے نیٹو کی رکنیت ضروری ہے، لیکن واشنگٹن تاحال اس حوالے سے واضح مؤقف اختیار کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق فرانسیسی خبر رساں ادارے "اے ایف پی” کے مطابق، یوکرین کے صدر زیلنسکی طویل عرصے سے جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کے بدلے نیٹو کی رکنیت کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن امریکا کی قیادت میں نیٹو اتحاد اس حوالے سے کوئی وعدہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

یوکرین پر روسی حملے کے تین سال مکمل ہونے پر کیف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا”اگر یوکرین میں امن قائم ہو جائے اور واقعی میری صدارت سے علیحدگی ضروری ہو، تو میں جانے کے لیے تیار ہوں، اگر ضرورت پڑی تو فوراً عہدہ چھوڑ دوں گا۔

زیلنسکی نے کہا کہ وہ سابق امریکی صدر ٹرمپ سے مل کر ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کے مؤقف کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ ان کے مطابق، یوکرین کو امریکا کی جانب سے سلامتی کی مضبوط ضمانت کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے ٹرمپ سے اپیل کی کہ وہ پیوٹن کے ساتھ کسی بھی ملاقات سے پہلے ان سے ملیں اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کریں۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ امریکا اور یوکرین کے درمیان یوکرین کے اہم معدنی وسائل تک امریکی ترجیحی رسائی کے معاہدے پر پیش رفت ہو رہی ہے۔

زیلنسکی نے طویل المدتی سیکیورٹی امداد پر زور دیا ہے، جبکہ ٹرمپ امن معاہدے پر مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ ان سفارتی کوششوں سے ماسکو اور کیف کے درمیان جنگ بندی ممکن ہو پائے گی یا نہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کسی بھی قسم کی علاقائی رعایت دینے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ روس پہلے ہی مشرقی یوکرین کے علاقوں کو اپنا حصہ تسلیم کر چکا ہے، کیونکہ وہاں کے عوام نے روس میں شمولیت کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے یوکرین کے ساتھ ایسا امن معاہدہ کرنے پر زور دیا ہے جو اس کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو یقینی بنائے۔

اقوام متحدہ میں ایک اہم ووٹنگ کے موقع پر گوتریس نے کہ
"میں ایک منصفانہ، پائیدار اور جامع امن کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہوں، جو بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر یوکرین کی مکمل خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھے۔”

امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں تنازع کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاہم اس میں یوکرین کی علاقائی سالمیت کا کوئی ذکر شامل نہیں۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جاری جنگ کو روس کا "دفاعی مشن” قرار دیا اور کہا کہ”یہ قسمت اور خدا کی مرضی ہے کہ روس کو اپنا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔”

انہوں نے یوکرین میں لڑنے والے روسی فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہاآپ لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہمارے وطن، قومی مفادات اور روس کے مستقبل کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔

یوکرین کی فضائیہ کے مطابق، روسی افواج نے رات کے وقت یوکرین پر ریکارڈ 267 ڈرون حملے کیے، جن میں سے بیشتر کو یوکرینی دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا، اور کسی بڑے نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

دوسری طرف، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے زیلنسکی کے بیانات کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا:
"کسی بھی سربراہِ مملکت کے لیے اس قسم کے بیانات ناقابلِ قبول ہیں۔ ٹرمپ کا ردِ عمل بالکل فطری ہے۔”

روسی خبر رساں ادارے "تاس” کے مطابق، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ملاقات ہوئی، اور دونوں ممالک کے سفارتکار آئندہ ہفتے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔

امریکی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کے تناظر میں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون اور برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر بھی واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں تاکہ یوکرین کی حمایت کا معاملہ اٹھایا جا سکے۔

یوکرین کی جنگ اور اس سے جڑے سفارتی معاملات پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ زیلنسکی کی نیٹو میں شمولیت کی شرط اور ٹرمپ سے ملاقات کی درخواست کے باوجود، ماسکو کی جانب سے سخت مؤقف برقرار ہے، جبکہ امریکا اور یورپی ممالک بھی مختلف سفارتی حکمتِ عملی اختیار کر رہے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی یا نہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین