میری دلچسپی میں اُس وقت اضافہ ہوا جب پاس بیٹھے ایک شخص نے کہا “تفتیشی افسران آزاد خان یا مقدس حیدر” ہٹا دیئے جائیں گے اور بگڑے نوابوں کی تفتیش آگے نہیں بڑھے گی، میں سوچنے پر مجبور ہوگیا یہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے اسی دوران ساحر حسن (اداکار ساجد حسن) کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا، اُس نے weed کا پف لگایا اور کہانی سنانا شروع کردی، یہ کہانی ڈیفنس، کلفٹن کے لڑکے لڑکیوں کے علاوہ بزنس مین، بیوروکریٹس، سیاست دان اور شوبز انڈسٹری میں کھلبلی مچا چکی ہے اور کراچی ایئرپورٹس سے کئی کردار فرار ہوچکے ہیں کچھ بیرون ملک چلے گئے اور کچھ دوسرے شہروں میں معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ یحییٰ عرف شاہ جی بین الاقوامی ڈرگ ڈیلرز کا اہم کارندہ ہے ، یہ ڈرگ منگواتا ، اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں سپلائی کرتا ہے ، کراچی میں بازل نامی شخص (بیرون ملک فرار) مصطفی ، ساحر اور عثمان سے رابطے اور ڈیلیوری کا کام کرتا ہے۔ یہ منشیات تین قسم کی ہے جس میں “جنگل بوائے” مہنگی ترین منشیات ہے ، پامیلا اور جیلیٹو اس کے بعد آتی ہیں ۔ اس مہنگی ترین منشیات کے کراچی میں تین ڈیلر ہیں ایک عثمان ( ٹریفک حادثے میں ہلاک ) دوسرا مصطفی (ارمغان کے ہاتھوں قتل) اور تیسرا ساحر خود ہے۔ یہ تینوں نوجوان خفیہ ویب سائٹس کے ذریعے منشیات کا آرڈر دیتے اور کراچی میں ٹی سی ایس اور لیپرڈ نامی کوریئر سروس کے ذریعے پارسل وصول کرتے تھے۔
جنگل بوائے نامی منشیات 15 ہزار روپے گرام فروخت ہوتی ہے، جیلیٹو 12 ہزار روپے گرام اور پامیلا 10 ہزار روپے گرام فروخت ہوتی ہے اس میں کراچی کے ڈرگ ڈیلرز کو 30 فیصد منافع ملتا ہے اور اسلام آباد ، لاہور میں موجود یحییٰ عرف شاہ جی کو 55 سے 50 فیصد منافع ملتا ہے۔
ساحر حسن ماہانہ 2700 گرام منشیات فروخت کرتا تھا ، 7 ہزار 700 روپے میں ساحر ، مصطفی اور عثمان کو منشیات ملتی تھی، ساحر ماہانہ 2 کروڑ 7 لاکھ 90 ہزار کی منشیات خریدتا تھا اور 2 کروڑ 97 لاکھ کی فروخت کرتا تھا ، منشیات کے اس کاروبار سے ساحر کو ماہانہ 90 سے 95 لاکھ روپے منافع ہوتا تھا۔ ساحر یا مصطفی کے موبائل فون، سی آئی اے اور آئی بی کی تفتیش میں بہت سے نام ایسے آئے ہیں جنہوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ساحر سے ایک خاتون جس کا مہنگا ترین فلیٹ ڈیفینس میں موجود ہے، یہ خاتون ماہانہ ایک اونس یعنی 28 گرام جنگل بوائے نامی منشیات خریدتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کلائنٹ 13 لاکھ 44 ہزار کی منشیات ماہانہ خریدتا ہے اور ایسے کئی کردار اس فہرست میں موجود ہیں اور یہ وہ کردار ہیں جو انتہائی طاقتور ہیں اور ملک کے فیصلے کرتے ہیں۔
تفتیشی حکام کہتے ہیں یہ قصہ جلد ختم ہوجائے گا مگر تعلیم یافتہ نوجوان نسل تباہ ہوجائے گی ، ڈیفنس ، کلفٹن کے کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی یہ مہنگا ترین نشہ تیزی سے پھیل رہا ہے اس معاملے پر حکومت اور انتظامیہ نے بیان بازی تو بہت کی مگر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساحر حسن جیسا لڑکا بغیر ویڈ پیئے بات بھی نہیں کر پارہا، یہ مہنگے ترین بنگلوں میں رہنے والوں کا حال ہے جن کے بچے زنجیروں سے بندھے ہیں اور والدین شرمندگی میں اس معاملے پر بات نہیں کر پاتے جبکہ غریب کے بچے منشیات کی لت میں سڑکوں پر پڑے ہیں۔