اللہ کو راضی کرنے کا مہینہ ’ماہ رمضان

اگر اللہ کے بندے پورے سال رمضان کی طرح زندگی گزاریں تو خوبصورت دنیا بنانے، سچی عبادت اور مدد کے ساتھ ایک کامیاب و بامقصد زندگی جینے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ کو راضی کرنے کی فکر کئے بغیر یہ ممکن نہیں۔
ماہ رمضان سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ روزہ کا تصور تمام مذاہب میں موجود ہے۔ اسلام میں ایک ماہ کے روزے فرض ہیں۔ اس ماہ کی بے حساب فضلتیں ہیں۔ روزہ کو جسمانی عبادت کہا گیا ہے۔ روزے میں بھوکے پیاسے رہنے سے ایک طرف خود کو قابو میں رکھنے، صبر کرنے اور جسمانی نظام کو راحت پہنچانے کی تربیت ہوتی ہے، تو دوسری طرف تنگی، بھوک، پیاس اور محدود وسائل میں زندگی گزارنے والوں کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے۔ اسی سے دوسروں کی غم گساری، ہمدردی، انسانوں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس مہینے میں اللہ اپنے بندوں کو رحمتوں سے نوازتا ہے۔ ان کی نیکیوں کا ثواب 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک نیکیاں کمانے، گناہوں سے بچنے، اللہ کو راضی کرنے اور عبادت کرنے والا مہینہ ہے۔ تہجد، فجر سے عشاء تک نمازوں کا اہتمام پھر دیر رات تک نماز تراویح میں وقت گزرتا ہے۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر و اذکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رسول پاک کا فرمان ہے کہ ’’جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کراتا ہے تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ رکھنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘ (ترمذی)

رمضان اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ اس ماہ کی برکت سے اللہ اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کی مغفرت کو آسان بناتا ہے۔ ماہ رمضان میں 29 یا 30 روزے ہوتے ہیں جنہیں 3 حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلا عشرہ (10 دن) رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا ہے۔ اس لئے رمضان میں گناہوں سے توبہ، غلطیوں کو سدھارنے، ضرورت مندوں کی مدد، خدمت اور عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عبادت سے قلب نرم ہوتا ہے، مزاج کی سختی دور ہوتی ہے۔ غریبوں، ناداروں، کمزوروں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں سے محبت پیدا ہوتی ہے۔ ان کی مدد اور خدمت کے لئے دل آمادہ ہوتا ہے۔ اس طرح رمضان اللہ کو راضی کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ مسلمان رمضان کا پورے سال انتظار کرتے ہیں۔ رمضان کی برکت سے غریب سے غریب انسان کو بھی کھانے کے لئے اچھی غذا میسر آتی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رجب ماہ سے ہی رمضان کے آنے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ شعبان میں آپ کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ اماں عائشہ کا بیان ہے کہ رمضان آتے ہی آپ عبادات کے لئے اپنی کمر کس لیا کرتے تھے۔ ہوا کی طرح فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے۔ کسی سوال کرنے والے کو آپ واپس نہیں لوٹاتے تھے۔ اس سے ہمیں بھی دوسروں کی مدد کا پیغام ملتا ہے۔ جس طرح روزہ جسم کی عبادت ہے اسی طرح زکوۃ اور صدقہ مال کی عبادت ہے۔ صدقہ و زکوۃ ان لوگوں کی مدد کا ذریعہ ہے جو اقتصادی تنگی سے خستہ حال زندگی گزار رہے ہیں۔ ان یتیموں کے کاندھے کا مضبوط سہارا ہے جن کے سر سے ماں باپ کی نعمت کو ہٹا لیا گیا ہے۔ جس طرح ہر مسلمان پر رمضان کے روزے فرض ہیں، اسی طرح ہر مالدار شخص (صاحب نصاب) پر زکوٰۃ فرض ہے۔ روزہ جسم کو پاک کرتا ہے تو زکوۃ مال کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ صدقہ فطر ادا کرنا ہر مسلمان پر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا واجب ہے۔ رمضان کی آخری شب میں پیدا ہوئے بچے اور بچی کی جانب سے بھی صدقہ فطر ادا کیا جانا ضروری ہے۔ اس کا مقصد ان لوگوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل کرنا ہے جو غربت اور مفلسی کی وجہ سے استطاعت نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ سے ہی عید آنے پر مرجھائے چہروں پر بھی رونق پھیل جاتی ہے۔

زکوٰۃ و صدقات کے پہلے مستحق رشتہ دار، پڑوسی، محلہ کے فقیر، مسکین، مفلس، یتیم، غریب و نادار لوگ ہیں۔ رمضان آتے ہی مسلم محلوں پر پیشہ ور فقیروں، مصنوعی محتاجوں، مولوی نما چندہ خوروں کی یلغار ہوتی ہے۔ کئی تو بھیس بدل کر بھیک مانگتے ہیں۔ ہمدردی اور مدد کے جذبہ سے سرشار سادہ لوح مسلمان زکوٰۃ و صدقات کی رقم ان کو دے دیتے ہیں۔ اس سے ان کے فرض کی ادائیگی نہیں ہوتی اور نہ اس رقم کے خرچ کا سماج میں کوئی فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ صدقہ و زکوٰۃ کی رقم جس علاقہ یا محلہ کے لوگوں کی ہے اسی جگہ کے فقیر و نادار لوگوں پر خرچ کرنے کا ہی اسلامی اصول ہے۔ قرآن میں زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کو انفرادی طور پر خرچ کرنے کے بجائے اجتماعی نظام قائم کیا جانا چاہئے۔ جیسے انفرادی طور پر نماز ادا کرنے کا وہ ثواب نہیں جو جماعت کے ساتھ ہے، یہی معاملہ زکوٰۃ کا بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو لیکن انفرادی طور پر اسے زکوٰۃ کی رقم لینے میں تکلف ہو۔ مگر بیت المال سے مدد حاصل کرنے میں اسے کوئی تذبذب نہیں ہوگا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ پورے شہر یا ملکی بنیاد پر یہ نظام قائم ہو۔ ایک محلہ یا چند گلیوں یا مسجد کے دائرہ پر بھی یہ مشتمل ہو سکتا ہے۔ اگر مسلمان اس طرف متوجہ ہوں تو ہر سال زکوٰۃ و فطر کی بڑی رقم جو ضائع ہو جاتی ہے، وہ مسلم سماج کے کام آ سکتی ہے اور مسلمانوں کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔

رمضان آتے ہی بازاروں کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ کئی لوگ روزہ کا اہتمام کر خدا کو راضی کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے بجائے پورا مہینہ عید کی تیاری میں بازار کی نذر کر دیتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کا مقصد کچھ اس طرح بیان کیا ہے ’’اے لوگو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ (پرہیزگاری) حاصل کرو۔‘‘ (قرآن 2:183)۔ اللہ کے رسول (ص) نے بتایا کہ خدا کا فرمان ہے ’’آدم کی اولادوں کے سارے کام ان کے لئے ہیں سوائے روزہ کے، وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ (بخاری)

روزہ برائیوں سے ڈھال کی طرح حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا روزے کی حالت میں جھوٹ، غیبت، غصہ، گالی گلوچ اور لعن طعن سے پرہیز کیا جائے۔ اگر کوئی ناشائستہ بات کرے تو اس سے کہہ دیں کہ میں روزے سے ہوں۔ بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی پسند و ناپسند کا خیال رکھنا اور اس کو خوش کرنے والے کام کرنے کا نام روزہ ہے۔ اسی ماہ میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے جسے ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر بتایا گیا ہے۔ اس رات کو تلاش کرنے اور اس کا اہتمام کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر روزہ کا مقصد اپنے آپ کو بہتر انسان بنانا، سماج کی بھلائی کے لئے کام کرنا، ضرورت مندوں اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا ہے تاکہ اللہ کا قرب نصیب ہو اور وہ راضی ہو جائے۔ اگر اللہ کے بندے پورے سال رمضان کی طرح زندگی گزاریں تو خوبصورت دنیا بنانے، سچی عبادت اور مدد کے ساتھ ایک کامیاب و بامقصد زندگی جینے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ کو راضی کرنے کی فکر کئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین