امریکا کی جیلوں میں ہر سال ہزاروں قیدی اسلام قبول کر رہے ہیں، اور یہ وہاں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ کینیڈا براڈکاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، قیدی اسلام کی تعلیمات میں روحانی سکون اور نظم و ضبط کا نظام پاتے ہیں، جو ان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے۔ ایک امریکی تنظیم "طیبا فاؤنڈیشن” کے مطابق، اس نے 13,000 سے زائد قیدیوں کو تعلیمی مواد فراہم کیا، جن میں سے 90 فیصد نے اسلام قبول کر لیا۔ رپورٹ میں ایک ایسے قیدی کا ذکر بھی شامل ہے جو جیل میں آنے کے بعد نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ اب دوسروں کو بھی اسلامی تعلیمات سے روشناس کرا رہا ہے۔
واشنگٹن:امریکا کی جیلوں میں ہر سال ہزاروں قیدی اسلام قبول کر رہے ہیں، اور یہ وہاں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ کینیڈا براڈکاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) کی ایک تحقیقاتی سیریز "دی اسٹیٹ آف اسپیریچوئلٹی ود لیزا لِنگ” میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ آخر قیدیوں میں اسلام اتنی تیزی سے کیوں مقبول ہو رہا ہے۔
سی بی سی نے طیبا فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر رامی نسور سے بات کی، جو امریکی جیلوں میں قیدیوں کے لیے فاصلاتی تعلیم کا ایک پروگرام فراہم کرتی ہے۔ رامی نسور نے بتایا، "ہم نے تقریباً 15 سال پہلے اس تنظیم کا آغاز کیا تھا، کیونکہ یہ قیدیوں کی ایک بنیادی ضرورت تھی جس کا وہ بارہا مطالبہ کر رہے تھے۔”
ان کے مطابق، اسلام امریکا کی جیلوں میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ طیبا فاؤنڈیشن نے اب تک 13,000 سے زائد قیدیوں کو تعلیمی اور تربیتی مواد فراہم کیا ہے، جن میں سے تقریباً 90 فیصد افراد نے اسلام قبول کیا اور یہ سب کچھ جیل میں رہتے ہوئے ہوا۔
رامی نسور نے مزید وضاحت کی کہ جیل میں جسمانی اور روحانی طور پر محدود ہونے کی وجہ سے قیدیوں کو ایک ایسے نظام کی تلاش ہوتی ہے جو انہیں اندرونی سکون دے سکے، اور اسلام وہ ذریعہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، "اسلام میں نظم و ضبط کا ایک مکمل طریقہ کار موجود ہے، جیسے کہ پانچ وقت کی نماز، جو قیدیوں کو زندگی میں ایک نیا مقصد فراہم کرتی ہے۔”
سی بی سی نے اسلام قبول کرنے والے ایک قیدی محمد امین اینڈرسن سے بھی بات کی، جو 30 سال قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ انہوں نے جیل میں آنے کے دوسرے سال ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔
محمد امین نے بتایا، "جب میں جیل آیا تھا، تو میں نے اپنی انسانیت کھو دی تھی۔ میں ایک حیوان تھا، مگر جیل میں آ کر مجھے اپنی کھوئی ہوئی انسانیت واپس ملی، اور اس کا سارا سہرا اسلام کو جاتا ہے۔”
محمد امین فیلڈیلفیا کے رہائشی اور ایک پادری کے بیٹے تھے، مگر نوجوانی میں ہی منشیات کی لت میں مبتلا ہوگئے اور بعد میں ایک گینگ کا حصہ بن گئے۔ جرم کی راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا، جس کے نتیجے میں انہیں 30 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
جیل میں آ کر انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی زندگی، ایمان اور روحانیت پر غور کرنا شروع کیا۔ اس دوران، انہیں اسلامی تعلیمات میں وہ ذہنی، جسمانی اور روحانی سکون ملا جس کی انہیں ہمیشہ تلاش تھی۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے میں دیر نہیں کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔
آج، محمد امین نہ صرف خود اسلام پر عمل کر رہے ہیں بلکہ جیل میں دوسرے قیدیوں کو بھی اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، "اسلام نے میری زندگی بدل دی ہے اور اب میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی اسی روشنی کو دیکھیں جو مجھے ملی ہے۔”