تحریر: غلام مرتضی
اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے ایک بار پھر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں رحمتوں کی برسات ہوتی ہے، تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنے کا درس دیا جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا سنہری موقع نصیب ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس مبارک مہینے کو محض کھانے پینے، جھگڑوں اور دنیاوی مشاغل کا موسم بنا لیا ہے، جو رمضان کے اصل مقصد سے کوسوں دور ہے۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے رویوں میں نرمی اور حلم آنا چاہیے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ روزے کی حالت میں لوگوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مگر بازاروں اور سڑکوں پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دل افسوس سے بھر جاتا ہے۔ معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے، تلخ کلامی اور حتیٰ کہ ہاتھا پائی بھی عام ہو جاتی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ روزہ ہمیں صبر سکھانے کے بجائے مزید غصہ دلاتا ہے۔ تماشائیوں کا ہجوم لڑائی کو روکنے کے بجائے اسے دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے، جو معاشرتی بے حسی کی بدترین مثال ہے۔
دنیا کے اکثر ممالک میں رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں تاکہ روزہ داروں کو سہولت دی جا سکے، مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے، منافع خور اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور عام آدمی سحر و افطار کی بنیادی اشیا خریدنے کے لیے پریشان ہو جاتا ہے۔ رمضان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم سخاوت کو اپنائیں، مگر یہاں ضرورت مندوں کے لیے مشکلات مزید بڑھا دی جاتی ہیں۔
یہ مہینہ تقویٰ اور سادگی کا درس دیتا ہے، مگر ہم نے اسے کھانے پینے کا تہوار بنا لیا ہے۔ سحری اور افطار میں ایسی پرتکلف اور بھاری غذائیں استعمال کی جاتی ہیں جیسے ہم کسی ضیافت میں شریک ہوں۔ دسترخوان پر بے شمار نعمتیں سجتی ہیں، مگر ان میں سے ایک بڑی مقدار کوڑے میں چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف، مخیر حضرات کی طرف سے افطار دسترخوان سجانے کے نام پر چندہ جمع کرنے کی مہم رمضان سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اصل مقصد مستحقین کی مدد ہونا چاہیے، مگر اکثر اس رقم کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر لیا جاتا ہے۔
ٹی وی اسکرینز پر رمضان کا آغاز ہوتے ہی وہی ستارے، جو عام دنوں میں مختلف شوز اور اشتہارات میں نظر آتے ہیں، اچانک مذہبی سکالرز کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے نیکی اور تقویٰ کے سارے رنگ انہی کے دم سے ہیں۔ بڑی بڑی انعامی اسکیمیں، جذباتی تقاریر، اور مصنوعی روحانیت کا یہ کھیل دین کے حقیقی پیغام کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ رمضان کا اصل مقصد نفس کی اصلاح اور اللہ کی قربت ہے، نہ کہ دنیاوی شہرت اور مالی فائدے کا حصول۔
رمضان ہمیں خود احتسابی اور نیک اعمال کا موقع دیتا ہے، مگر بہت سے لوگ اسے صرف تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کئی افراد سحری کے بعد سونے کو ترجیح دیتے ہیں اور دن کا بڑا حصہ غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، حالانکہ یہی وقت قرآن کی تلاوت، ذکرِ الٰہی اور عبادات میں صرف کیا جا سکتا ہے۔
ہم میں سے اکثر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ روزہ درحقیقت صبر، بردباری، اور نیکی کے ساتھ جینے کی مشق ہے۔ یہ محض کھانے پینے سے رک جانے کا عمل نہیں، بلکہ زبان، آنکھ، ہاتھ اور دل سب کا روزہ ہونا چاہیے۔ رمضان برکتوں کا مہینہ ہے، مگر ہمارے اجتماعی رویے ہمیں ان برکتوں سے مستفید نہیں ہونے دیتے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: "تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔” (البقرہ: 183)
یہ مہینہ ہمیں خود کو سدھارنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور اللہ کے قریب ہونے کا سنہری وقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھتے ہیں؟ یا پھر ہر سال کی طرح اس بار بھی اسے محض رسم و رواج کے تحت گزار دیں گے؟ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے، اپنے کردار کو سنوارنا ہوگا، اور اس بابرکت مہینے کو حقیقی معنوں میں اپنی اصلاح کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم رمضان کی برکتوں سے حقیقی طور پر فیض یاب ہو سکیں گے۔