پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں فرق دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی رپورٹ کے مطابق یہ فرق محض مہارت یا تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ بڑی حد تک صنفی امتیاز کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ حالیہ برسوں میں اس میں کمی آئی ہے، مگر اب بھی غیر رسمی شعبوں میں خواتین کو مردوں سے 40 فیصد کم تنخواہ ملتی ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تنخواہوں میں صنفی فرق سب سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر شعبوں میں خواتین کی آمدن مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے، جس سے ملک میں صنفی امتیاز کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
پیر کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تنخواہوں میں پایا جانے والا یہ فرق زیادہ تر مہارت، تعلیم یا لیبر مارکیٹ کی خصوصیات کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی حد تک غیر واضح عوامل کی بنا پر ہے، جو کہ صنفی امتیاز کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صنفی تنخواہ کا فرق (جی پی جی) جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سری لنکا میں فی گھنٹہ اجرت کے لحاظ سے یہ فرق 22 فیصد، نیپال میں 18 فیصد، جبکہ بنگلہ دیش میں معاملہ الٹ ہے، جہاں خواتین اوسطاً مردوں کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ کماتی ہیں۔
پاکستان میں فی گھنٹہ اجرت کے لحاظ سے صنفی فرق 25 فیصد اور ماہانہ اجرت کے لحاظ سے 30 فیصد تک ہے، جس کا مطلب ہے کہ خواتین ہر 1000 روپے کے بدلے تقریباً 700 سے 750 روپے تک کماتی ہیں۔ اگرچہ یہ فرق اب بھی بہت زیادہ ہے، تاہم 2018 میں یہ 33 فیصد تھا، جو وقت کے ساتھ کچھ حد تک کم ہوا ہے۔
ILO کی رپورٹ کے مطابق لیبر مارکیٹ کے مختلف حصوں میں صنفی اجرت میں نمایاں فرق دیکھا گیا ہے:
رسمی شعبے میں تنخواہوں کا فرق تقریباً ختم ہو چکا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب لیبر قوانین لاگو ہوتے ہیں تو خواتین اور مردوں کی تنخواہیں تقریباً برابر ہوتی ہیں۔
غیر رسمی اور گھریلو شعبے میں یہ فرق 40 فیصد سے زائد ہے، جہاں قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین کو شدید اجرتی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سرکاری شعبے میں بھی صنفی فرق نسبتاً کم ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت قوانین اجرت میں مساوات قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
ILO کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی اجرت کا فرق مردوں اور خواتین کے درمیان عدم مساوات کو ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے مرد و خواتین کو مساوی اجرت دینے کے لیے قوانین بنائے ہیں۔
1951 میں منظور ہونے والا ILO کا "مساوی معاوضہ کنونشن” (کنونشن نمبر 100) دنیا کے سب سے زیادہ توثیق شدہ کنونشنوں میں شامل ہے، جس کا مقصد خواتین اور مردوں کے درمیان اجرتی مساوات کو یقینی بنانا ہے۔
پاکستان میں اگرچہ گزشتہ برسوں میں صنفی تنخواہ کے فرق میں کچھ بہتری آئی ہے، مگر اب بھی غیر رسمی اور گھریلو شعبے میں خواتین کو شدید اجرتی عدم مساوات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت لیبر قوانین کو مزید سخت کرے اور خواتین کو بہتر مواقع فراہم کرے تو اس فرق کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔