رمضان المبارک میں سموسوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک میں افطار کا دسترخوان سموسوں اور پکوڑوں کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ دبئی میں ایک ایسا ریسٹورنٹ موجود ہے جو روزانہ 35 ہزار سموسے فروخت کرتا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ خریدار اماراتی شہری ہیں۔ یہ ریسٹورنٹ 1968 میں قائم ہوا تھا اور اب دبئی سمیت دیگر شہروں اور سرحدی علاقوں تک بھی آرڈرز پہنچا رہا ہے۔
رمضان المبارک کے دوران جہاں روحانی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں، وہیں مختلف ممالک میں اپنی روایات اور تہذیب کے مطابق خصوصی پکوان بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک میں سموسے اور پکوڑوں کے بغیر افطار کا تصور ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
متحدہ عرب امارات، جو کئی جنوبی ایشیائی ممالک کے باشندوں کا دوسرا گھر بن چکا ہے، یہاں بسنے والے پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی رمضان میں اپنی روایتی افطاری کا ذائقہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
دبئی میں 1968 میں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھولا گیا تھا، جو اب اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ رمضان کے دوران روزانہ اوسطاً 35 ہزار سموسے فروخت کرتا ہے۔ یہ ریسٹورنٹ نہ صرف دبئی بلکہ ابو ظہبی، العین اور یہاں تک کہ یو اے ای-سعودی عرب کے سرحدی علاقوں سے بھی آرڈرز وصول کرتا ہے۔
ریسٹورنٹ کے مالک کا کہنا ہے کہ ان کے مستقل خریداروں میں پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی شامل ہیں، لیکن حیران کن طور پر سب سے زیادہ سموسے اماراتی شہری خریدتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اماراتی بھی اب سموسوں کے شوقین بن گئے ہیں اور رمضان میں ان کے سب سے بڑے گاہک یہی ہوتے ہیں۔