چیٹ جی پی ٹی سے طلبا میں نقل کا رجحان بڑھنے لگا، ماہرین تشویش میں مبتلا

جس سے محنت اور تحقیق کے بجائے طلبا میں شارٹ کٹ اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر کے طلبا اور محققین اپنے مقالہ جات اور امتحانات کی تیاری کے لیے ChatGPT اور دیگر مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئرز کا بے حد استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس رجحان کے باعث غیر مستند اور غلط معلومات تحقیقی مقالوں کا حصہ بننے لگی ہیں، جس پر سائنس دانوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

نیویارک: ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین کی تحقیق سے ایک اہم انکشاف سامنے آیا ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے طلبا اور محققین اپنے مقالہ جات اور امتحانی تیاری میں مصنوعی ذہانت پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں، جس میں ChatGPT سمیت دیگر جدید سافٹ ویئرز شامل ہیں۔

پہلے تک یہ رجحان صرف پروف ریڈنگ اور زبان کی درستی تک محدود تھا، لیکن اب زیادہ تر تحقیقی مقالے خود اے آئی کے ذریعے تیار کیے جانے لگے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود غیر مستند، جعلی اور غیر معیاری معلومات بھی مقالات اور امتحانی تیاری کا حصہ بننے لگی ہیں، جس کے باعث سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر مصدقہ تحقیق کی بھرمار ہو رہی ہے۔

سائنس دانوں نے اس صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ مقالے قابل اعتماد اور مستند نہیں سمجھے جا سکتے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے سافٹ ویئرز نقل کرنے والوں کے لیے سہولت فراہم کر رہے ہیں، جس سے محنت اور تحقیق کے بجائے طلبا میں شارٹ کٹ اپنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس رویے کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوگا کہ طلبا کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں متاثر ہوں گی، ان میں تحقیق اور تجزیے کی صلاحیت کمزور ہو جائے گی، اور کاہلی و آسان راستہ اختیار کرنے کی عادت بڑھتی جائے گی۔ اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو یہ انسانیت کے مستقبل کے لیے کسی بھی طور پر مثبت خبر نہیں ہوگی۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین