روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کے امکانات بڑھنے لگے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی جان بخشی اور باوقار سلوک کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ادھر، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پیوٹن سے درخواست کی ہے کہ یوکرین کے فوجیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اس صورتحال میں جی سیون ممالک نے روس کو وارننگ دی ہے کہ اگر وہ جنگ بندی پر راضی نہیں ہوتا تو اس پر مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے کرسک کے علاقے میں موجود یوکرینی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی درخواست کو ہمدردی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یوکرین کے رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیں۔ پیوٹن نے یقین دہانی کرائی کہ اگر یوکرینی فوجی ہتھیار ڈال دیں تو انہیں جان بخشی اور باوقار سلوک کی ضمانت دی جائے گی۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر پر زور دیا کہ وہ کرسک میں موجود یوکرینی فوجیوں کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ جنگ کے خاتمے کا ایک بڑا موقع ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ نے ماسکو میں اپنے نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کی روسی صدر سے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر بیان دیا کہ یہ ملاقات ’بہت اچھی اور نتیجہ خیز‘ رہی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یوکرین کے ہزاروں فوجی روسی فورسز کے گھیرے میں ہیں اور وہ انتہائی کمزور حالت میں ہیں۔ انہوں نے پیوٹن سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانیں بچائی جائیں، کیونکہ یہ ایک بڑا قتل عام بن سکتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد نہیں دیکھا گیا۔
فوجی ماہرین کے مطابق، کرسک میں یوکرینی فوج روسی سرزمین پر قدم جمانے کے بعد تقریباً محاصرے میں آ چکی ہے۔ تاہم، کیف کی فوج کا دعویٰ ہے کہ محاصرے کا کوئی خطرہ نہیں اور وہ بہتر پوزیشنوں پر واپس جا رہی ہے۔
دوسری جانب، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کینیڈا میں جی سیون اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ وٹکوف امریکا واپس آ رہے ہیں اور ہفتے کے آخر میں یوکرین کے حوالے سے مزید بات چیت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جنگ کو ختم کرنے کے قریب ہیں، لیکن ابھی مزید کام باقی ہے۔
ماسکو نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ اس کی فوج نے یوکرینی افواج کو کرسک سے نکالنے کی مہم میں ایک اور گاؤں پر قبضہ کر لیا ہے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے ٹرمپ کو وٹکوف کے ذریعے جنگ بندی کے منصوبے کا پیغام بھیجا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ تین سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارولن لیوٹ کے مطابق، ٹرمپ نے ابھی تک پیوٹن سے براہ راست بات نہیں کی ہے۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کا بھی کہنا ہے کہ انہیں جنگ کے خاتمے کا ایک اچھا موقع نظر آ رہا ہے۔ ان کے مطابق، اس وقت جنگ بندی کا ایک مضبوط موقع ہے اور یورپی شراکت داروں کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے بھی بہتر ہو رہے ہیں۔
جی سیون ممالک نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ یوکرین کے ساتھ جنگ بندی قبول نہیں کرتا تو اس پر مزید سخت پابندیاں لگائی جائیں گی۔
کیوبیک میں ہونے والے اجلاس میں جی سیون ممالک نے یوکرین کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا اور روسی جارحیت کی مذمت کی۔ ان ممالک نے یوکرین کی جانب سے 30 روزہ جنگ بندی کے امریکی مطالبے کی حمایت کی اور روس پر زور دیا کہ وہ مساوی شرائط پر جنگ بندی کو تسلیم کرے۔
مزید برآں، جی سیون نے جنگ بندی سے انکار کی صورت میں روس پر مزید اقتصادی پابندیوں، تیل کی قیمتوں پر کنٹرول، یوکرین کے لیے مزید امداد اور منجمد روسی اثاثوں کے استعمال جیسے اقدامات پر بھی غور کیا ہے۔
دوسری جانب، روسی صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اوپیک پلس معاہدے پر عملدرآمد اور یوکرین میں امن کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
کریملن کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے اوپیک پلس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر اتفاق کیا۔ پیوٹن نے فروری میں روسی اور امریکی سفارت کاروں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی میں سعودی عرب کی ثالثی کی کوششوں پر ولی عہد کا شکریہ بھی ادا کیا۔