اولاد کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں

مختصرًا جانتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے کیسے اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح کیسے فرمائی؟

(ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)

صالح اور نیک اولاداللہ تعالیٰ کی بیش قدر نعمت اوروالدین کےلیے دنیوی واُخروی زندگی میں زینت و راحت اور سکون کا باعث ہوتی ہےلیکن اولاد زینت و کمال کا سبب اُسی وقت بنتی ہے جب انہیں زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچپن سے ہی انہیں اسلام کے اخلاقی وروحانی ماحول میں پروان چڑھایا جائے۔شریعت مطہرہ کی رو سے والدین پر اولاد کے سلسلہ میں جو حقوق عائد ہوتے ہیں ، ان میں سب سے اہم اور مقدم حق اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے ۔اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات واَرکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسی پر اُخروی فلاح وکامیابی کا دار و مدار ہے ۔ دین وایمان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے متاع گراں مایہ ہونے کا احساس دل میں جاگزیں ہو،اگر کوئی دین وایمان کو معمولی چیز سمجھتاہے تو پھر اس سے خاتمہ بالخیر کی توقع رکھنا بھی مشکل ہے ۔اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتاہے جو قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ کی(آیت نمبر:133)میں مذکور ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب اپنی وفات کے وقت اپنی اولاد سے پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ قرآنِ کریم نے اس منظر کشی کو یوں بیان کیا ہے کہ:’’کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (e) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا: تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق (f) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گے‘‘(البقرة : 133)

یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی آخرت میں مؤاخذہ کاسبب بن سکتی ہے۔اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو بطورِ خاص یہ ہدایت کی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر کریں۔
بزرگانِ دین واہلِ علم ہستیاں اپنے معمولاتِ زندگی کا ایک حصہ عبادتِ الہی میں گزارا کرتے اور دوسرا حصہ لوگوں کی اصلاح وتربیت کرنے میں گزارتے جبکہ تیسرا حصہ اپنی اولاد اور اپنے گھر والوں کی اصلاح وتربیت میں صَرف کرتے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔(التحريم : 6)
اس آیت کی تفسیر کے بارے میں جب مولا علی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس سے مراد اپنی اولاد کو بذاتِ خود اَدب، علم اور اخلاق سکھاؤ ، اُن کو چلنے، پھرنے، سونے اور ہر طرح کے ظاہر و باطن کے اَعمال سکھاؤ۔ اسی طرح ایک اور صحابی سے اِس آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کو دین کی سمجھ دو اور اُن کے ظاہر و باطن کی اصلاح کرو۔

انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دی، انہیں آدابِ زندگی سکھائے اور اُن میں اخلاقِ حسنہ پیدا کرنے کے لیے ناصحانہ ومعلّمانہ کردار ادا کیا کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ والدین سے اولاد کی تربیت کے بارے میں باز پرس کرے گا۔اس لیے والدین اولاد کی تربیت کی ذمہ داری کو ہلکا نہ جانیں۔ اگر والدین باقاعدگی سے نماز ادا کرنے والے ہوں گے تو اولاد بھی نمازی ہوگی۔والدین اپنے اخلاق وکردار سے اولاد کی تربیت کریں کیونکہ اولاد والدین کے اَخلاق و اطوار کا پرتو ہوتی ہے۔ اچھی تربیت والی اولاد والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی قرآنی ہدایات وتعلیمات پر عمل پیرا ہوتی ہے۔والدین اولاد کی دینی تربیت کی ابتداء نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی کی پابندی سے کریں۔اسلامی نظامِ حیات میں تعلیم و تربیت کو مرکزیت حاصل ہے۔حضور ﷺ نے اپنے اصحاب کو اخلاقِ عالیہ سکھائے اور اُن کے ظاہر و باطن کی اصلاح کی اور پھر پیغمبرِ آخر الزماں ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی اولاد اور دیگر لوگوں کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کیا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے عرض کیا کہ ہمیں نصیحت کریں کہ میں اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کروں؟ تو آپ نے فرمایا:’’أَدِّبْ اِبْنَكَ‘‘اپنے بیٹے کو سب سے پہلے اعلیٰ ادب سکھاؤ۔ اس لیے کہ خدا کی قسم! قیامت کے روز تم سے تمہاری اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا کہ: تم نے اپنی اولاد کو کیا ادب سکھایا اور اُن کو کیا تعلیم دی۔
اچھے اوصاف اور خصائل و کمالات کو اپنی شخصیت میں جمع کر دینے کا نام اَدب ہے۔یعنی اچھے اندازِ گفتگو ، اچھے اخلاق کے ساتھ لوگوں کے ساتھ پیش آنا اَدب کہلاتا ہے۔ آئیے مختصرًا جانتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے کیسے اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح کیسے فرمائی؟

حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی کہ: اے میرے بیٹے!اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرنا، اد ب سے پیش آنا، صالحین کی اتباع میں زندگی گزارنا، اپنے قول و فعل کے متعلق چوکنا رہنا کیونکہ رب تعالیٰ کی ذات سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔تمام عمر نماز قائم کرنا ، ہمیشہ نیکی کا حکم دیتے رہنا، برائی سے بچنا اور بچاتے رہنا، اللہ کی راہ میں جب بھی کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرنا، غرور سے بچنا اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اکڑ کر نہ چلنا یہ اُسے سخت سخت ناپسند ہے۔

عظیم باپ مولا علی علیہ السلام اورعظمت کا روشن مینار ماں سیدۂ کائنات سلام اللہ علیہا کی تربیت کا مظہر ہے کہ سیدنا حسنین کریمینؑ نے دینِ مصطفوی کو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے حیاتِ نو بخشی اور بنائے دین کی حفاظت کی۔
اولاد کی تربیت کے لیے امام غزالیؒ کے نصائح پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو’’أیها الولد‘‘ کے نام سے کتاب کی شکل میں موجود ہیں۔
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ماں کی تربیت کے فیض سے منصبِ غوثیت پر فائز ہوئے۔اسلامی تاریخ عظیم ماں باپ کی تربیت کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔اولاد کی اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کے لیےشیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تین عدد کتب ’’بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار‘‘کا مطالعہ اِس ضمن میں راہنمائی کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
صالح اور نیک اولاد اپنے والدین اور خاندان کے لیے سعادت مندی کا باعث تو ہوتی ہی ہے ایسی اولاد سوسائٹی کے لیے بھی خیر کا باعث ہوتی ہے۔

والدین پر سوسائٹی کا یہ حق ہے کہ وہ خرد مند اور باشعور اولاد اُس کا حصہ بنائیں۔آج ہر فرد سوسائٹی میں حد سے متجاوز عدمِ برداشت ، بد اخلاقی ، بد اَمنی، ڈاکہ زنی اور جرائم پر شاکی ہے۔یہ جرائم کرنے والے کسی باپ کے بیٹے ہیں، کسی خاندان ، کسی گھر سےپروان چڑھے ہیں۔ یہ سوال ہر باپ سے ہے کہ جب اخلاقی گراوٹ کا گلہ کیا جاتا ہے تو کیا ہم نے خود پر کبھی غور کیا کہ ہم نے اولاد کی تربیت کے حوالے سے بطور والد یہ ذمہ داریاں پوری کیں؟ اگر ماں باپ نے تعلیم و تربیت کی فراہمی کا حق ادا کیا ہوتا تو سوسائٹی اس قدر لاقانونیت اور اَنارکی کا شکار نہ ہوتی۔والدین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کو مادی ترقی کی دوڑ میں ضرور شامل کریں مگر اُن کی دینی واخلاقی نہج پر تعلیم وتربیت سے دست کش نہ ہوں۔اخلاقیات کا گہوارہ پُر امن اور خوشحال سوسائٹی کی تشکیل کے لیے والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کو سرِ فہرست رکھنا ہوگا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین