امریکا اور حوثی باغیوں کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حوثیوں نے مزید حملے کیے تو اس کے سنگین نتائج ایران کو بھگتنا ہوں گے۔ دوسری جانب، یمن میں حوثیوں اور امریکی افواج کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، جہاں امریکی حملوں میں کئی حوثی رہنما مارے گئے اور یمنی حوثیوں نے بھی امریکی بحری بیڑے پر حملے کیے ہیں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں خطے کی صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔
امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر حوثی باغیوں نے مزید حملے کیے تو اس کے ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا جائے گا اور اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی چینل سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ "ٹرتھ” پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حوثیوں کے ہر حملے کا براہ راست تعلق ایران سے جوڑا جائے گا اور تہران کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے، جو انتہائی سنگین ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کی جانب سے حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے اتوار کو واضح کیا تھا کہ جب تک حوثی گروپ اپنے حملے بند نہیں کرتا، امریکی فوجی مہم جاری رہے گی۔
یمن میں امریکی افواج اور حوثیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں حوثیوں نے امریکی بحری بیڑے پر دو حملے کیے، جبکہ امریکی افواج نے جوابی کارروائی میں کئی حوثی رہنماؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حوثی گروپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں دوسری بار یو ایس ایس ہیری ٹرومین طیارہ بردار بحری جہاز پر حملہ کیا ہے۔ حوثیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنگی بحری جہاز پر "متعدد ڈرونز، بیلسٹک اور کروز میزائل” داغے ہیں۔
حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ پر حملے بند نہیں کرتا، وہ امریکی اور اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ دوسری جانب، امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے دعویٰ کیا کہ امریکی فضائی حملوں میں کئی حوثی رہنما مارے گئے ہیں اور امریکی افواج نے حوثیوں کے 11 ڈرونز مار گرائے ہیں۔
یمن کے سرکاری خبر رساں ادارے صبا کے مطابق، امریکی افواج نے سعدہ شہر میں کینسر کے ایک مرکز پر فضائی حملے کیے، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ اس حملے پر مقامی حکام نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خطے میں جاری اس کشیدگی کے باعث صورتحال مزید بگڑ رہی ہے، اور عالمی برادری اس تنازعے کے ممکنہ اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔