مدارس رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت ہے، فضل الرحمٰن

اگر یہ بل پاس ہو چکا تھا تو صدرِ مملکت نے اعتراض کیوں بھیجا؟

اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ماضی میں دینی مدارس کے حوالے سے قانون سازی کی تھی، جس پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہوا تھا۔ 2004 میں مدارس کے حوالے سے سوالات اٹھے، جس کے بعد مذاکرات ہوئے اور طے ہوا کہ دینی مدارس شدت پسندی سے دور رہیں گے۔ اس کے بعد 2010 میں معاہدہ ہوا کہ اگر کسی مدرسے سے کوئی شکایت ہو تو متعلقہ تنظیم کو اطلاع دی جائے گی، براہِ راست مدرسے پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیز ایکٹ کے تحت کرانے کی بات کی، پھر وزارت تعلیم کا ذکر ہوا، لیکن ان معاملات پر کوئی مستقل قانون نہ بنایا گیا، صرف ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں تین نکات طے کیے گئے تھے:

پہلے سے رجسٹرڈ مدارس کی حیثیت برقرار رہے گی اور نئے مدارس کی رجسٹریشن میں حکومت تعاون کرے گی۔

مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولے جائیں گے۔

غیر ملکی طلبہ کو پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے 9 سالہ ویزا دیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے شکایت کی کہ یہ معاہدہ حکومت نے توڑ دیا، آج تک مدارس کے اکاؤنٹ کھلے نہ ہی طلبہ کو ویزا دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں مختلف بورڈز بنا دیے گئے، جن کا 2004 یا 2010 کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کے دور میں مدارس کے معاملات سلجھانے کی کوشش کی گئی، تمام قائدین کی مشاورت سے ایک مسودہ بنایا گیا جو قومی اسمبلی میں پیش ہوا۔ ایوان نے اس کی منظوری دی، لیکن قانون سازی کے دوران اچانک تبدیلیاں کر دی گئیں، جس پر ہم نے احتجاج کیا اور قانون سازی سے الگ ہو گئے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر یہ بل پاس ہو چکا تھا تو صدرِ مملکت نے اعتراض کیوں بھیجا؟ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی اسے محض "قلمی غلطی” قرار دے کر درست کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور تاخیر ختم کی جائے۔

انہوں نے واضح کیا کہ مدارس کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے طے شدہ معاہدے میں مزید تبدیلی کی کوشش کی تو فیصلہ ایوان کے بجائے میدان میں ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مدارس نے ہمیشہ پاکستان، آئین اور قانون کا ساتھ دیا ہے۔ ہم جدید تعلیم کے مخالف نہیں، لیکن مذہبی تعلیم کے نظام کو ختم کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔ مدارس چاہے رجسٹریشن ہوں یا نہ ہوں، یہ نظام قائم رہے گا اور زندہ رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم قانون کے تحت چلنا چاہتے ہیں، مگر حکومت مدارس کے بینک اکاؤنٹس اور رجسٹریشن میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اگر حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار حکومت ہوگی۔

آخر میں مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو خبردار کیا کہ دینی مدارس کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر مدارس کے معاملے میں کوئی مداخلت یا تبدیلی کی گئی تو ہم سخت ردِعمل دیں گے۔

 

 

متعلقہ خبریں

مقبول ترین