اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9 مئی 2023 کے پرتشدد احتجاج کے دوران ملزمان کی فوجی تحویل میں لینے کے وقت بنیادی حقوق معطل نہیں تھے اور نہ ہی کوئی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ایمرجنسی کے نفاذ کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر قرار دیا ہے اور یہ آرٹیکل فوجی عدالتوں کے مقدمات سے تعلق نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 233 کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق کو معطل کر سکتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایمرجنسی کے زمانے میں عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا۔
جسٹس امین الدین خان نے یہ واضح کیا کہ بنیادی حقوق کی عدالت میں حفاظت کی جا سکتی ہے، جب کہ عملداری معطل ہو سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس کیس میں ملزمان کی فوجی تحویل میں لینے کے وقت بنیادی حقوق معطل نہیں تھے۔
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے مقدمے کا ذکر بھی ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دینے سے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جا سکتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ ہم اپنے پراسیکیوشن سسٹم کو کیوں مضبوط نہیں کرتے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ماضی میں فوجی تنصیبات پر ہوئے حملوں کے واقعات کا ذکر کیا اور ان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ کیس ملٹری کورٹس کے وجود کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ دیکھنے کا ہے کہ کون سا مقدمہ وہاں چل سکتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر نے اس بات پر زور دیا کہ 9 مئی کے واقعات میں 103 ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمات چل رہے ہیں، جبکہ باقی مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ جانے کی کوشش کی کہ کسی جرم کے لیے کیس کہاں جانا چاہیے، اور کس طرح طے کیا جا رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی اس تفریق کے اصولوں پر سوالات اٹھائے۔