وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے مذاکرات کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو مذاکرات کرنے ہیں تو وہ ڈائریکٹ کر لے، ہمیں کیوں شامل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کیا یہ شف شف ہورہا ہے؟، پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی پر سوالات اٹھاتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اگر ان کا یہی رویہ رہا تو مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی
خواجہ آصف نے کہا کہ فریقین کا بنیادی فرض ہے کہ ایوان کی کارروائی چلائیں، اگر ایوان کی کارروائی روکی جائے گی تو مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان پہلے تو مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اب جب کہ بات چیت کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے، وہ اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
یہ بات انہوں نے قومی اسمبلی کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں کہی، جو قائم مقام اسپیکر سید میر غلام مصطفیٰ شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کے 12 ویں اجلاس کے ایجنڈے اور دورانیے پر بات کی گئی، اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس 24 جنوری تک جاری رکھا جائے گا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس منگل، بدھ اور جمعرات کو دن 2 بجے شروع ہوگا۔
اس اجلاس میں وقفہ سوالات اور عوامی فلاح و بہبود سے متعلق قانون سازی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اجلاس میں وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، ممبران قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری، شیخ آفتاب احمد، محترمہ نزہت صادق، سید نوید قمر، شہلا رضا، سید حفیظ الدین اور خالد حسین مگسی سمیت دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اس دوران ایم کیو ایم پاکستان کے رکن سنجے نے حلف اٹھایا۔
خواجہ آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین نے احتجاج کیا اور واک آؤٹ کردیا۔
وقفہ سوالات میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے علاقائی سلامتی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان سے فعال رہنے والی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کا تنازع پاکستان پر بہت بڑا اثر ڈال رہا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خواجہ آصف نے اس موقع پر کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ رویہ جاری رہا تو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے پہلے مذاکرات کرنا نہیں چاہتے تھے اور اب وہ اس معاملے پر سنجیدہ نہیں ہیں۔
پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے وقفہ سوالات میں بانی پی ٹی آئی کو غیر پارلیمانی الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی دوران جے یو آئی (ف) کی رکن اسمبلی عالیہ کامران نے وقفہ سوالات کے اخراجات پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ اس دوران سوالات کے بجائے تقاریر کی جاتی ہیں، جس سے وقت ضائع ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے شہروں کے کچرے کی تلفی کے لیے سائنسی طریقوں کی ضرورت پر زور دیا اور اس پر کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
خواجہ آصف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہسپتالوں کے کچرے کی سرنگیں دوبارہ سیل کی جاتی ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت اس وقت ویسٹ مینجمنٹ پر کام کر رہی ہے اور اس معاملے پر کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
بعد ازاں، قومی اسمبلی نے لاس اینجلس کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کے لیے قرارداد منظور کی۔ اسی دوران انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات نہ ہونے پر توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش کیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون نے اس پر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے اس کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کیے ہیں۔
اجلاس کے دوران 38 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرنے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ یونان کشتی حادثے کے بعد ایف آئی اے کے 38 افسران کو برخاست کردیا گیا۔
بعد ازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس کل دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔