اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پیکا قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مقتدر قوتوں کے لیے آئین اور قانون ایک موم کی ناک کی مانند ہے، جسے جب اور جہاں چاہیں، اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی دباؤ کے نتیجے میں پیکا ترمیمی بل پر دستخط کیے گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کے دفتر کا دورہ کیا، جہاں صدر پی آر اے پاکستان عثمان خان، سیکریٹری نوید اکبر اور دیگر ممبران نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پی آر اے کے صدر اور سیکریٹری نے مولانا فضل الرحمٰن کو پیکا ترمیمی بل پر بریفنگ دی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمانی رپورٹرز کو یقین دہانی کرائی کہ وہ پیکا قانون پر صحافی برادری کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست اور صحافت کا ہمیشہ سے ایک مضبوط تعلق رہا ہے، خاص طور پر پارلیمان میں صحافیوں اور ارکان اسمبلی کے درمیان باہمی روابط کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قوانین خاص حالات کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بعض قوانین اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت جو حالات تھے، وہ آج بھی باعث حیرت ہیں۔ مقتدر حلقے آئین کو اس انداز میں چلاتے ہیں جیسے وہ ملک کو چلانے کے لیے نہیں، بلکہ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے بنے ہوں۔
انہوں نے پیکا قانون پر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں صحافیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور ان کی تجاویز حاصل کرنی چاہیے تھیں۔ انہوں نے صدر مملکت کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ اس قانون پر دستخط کرنے سے پہلے صحافتی تنظیموں کی رائے لیں، لیکن بظاہر کسی دباؤ کے تحت اس ترمیمی بل پر دستخط کر دیے گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب ہم سے مسودے کا تقاضا کیا گیا تو ہم نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مسودہ فراہم کیا۔ اگر ہم اس بل کو بغیر کسی مزاحمت کے تسلیم کر لیتے، تو جمہوریت محض نام کی رہ جاتی اور درپردہ مارشل لا نافذ ہو جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ماہ تک مذاکرات کیے اور مکمل آئینی و جمہوری بنیادوں پر بات کی۔ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا، نہ ہی کوئی اضافی مطالبہ کیا، بلکہ کامیابی کے ساتھ 56 کلاز میں سے کئی غیر ضروری شقیں نکال کر ان کی تعداد 26 تک محدود کر دی۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ ججز کو مکمل طور پر بے اختیار بنا دیا گیا، جس کا آج بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے ساتھ یہ سلوک اس کی روح کے خلاف ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چل رہی ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد فلسطین میں جنگ بندی ممکن ہوئی۔ پہلی بار اسرائیل کو فلسطین میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو مصر میں آباد کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن عرب لیگ نے اسے مسترد کر دیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین میں مزید یہودی آبادکاری کی کوئی گنجائش نہیں، اس کے باوجود اسرائیل مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ صرف ایک صدر نہیں، بلکہ ایک "بدمعاش صدر” تھا، جو فلسطینی عوام کے حقوق سلب کرنا چاہتا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ امریکہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ہمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہم نے اس منصوبے کو ناکام بنایا۔
انہوں نے زور دیا کہ موجودہ حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں، بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر کام کر رہی ہے، جو کہ ملک اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں۔