وفاقی حکومت نے گندم کی سالانہ کم از کم امدادی قیمت کے اعلان کی روایت کو ختم کرتے ہوئے ملکی گندم مارکیٹنگ کے نظام میں مداخلت روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے سیکریٹری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کو آگاہ کیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت اس سال گندم کی کم از کم سپورٹ پرائس مقرر نہیں کی جائے گی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں اور رواں سال کسی قسم کی درآمد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مزید یہ کہ ملک کے کسی بھی صوبے یا ضلع میں گندم کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ حکومت، نجی شعبے کے تعاون سے، کسانوں کے لیے تجارتی بینکوں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی سہولتیں فراہم کرنے پر کام کر رہی ہے۔
ملکی گندم مارکیٹنگ کے نظام میں حکومتی مداخلت ختم کرنے کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں کو عالمی منڈی کی سطح پر برقرار رکھنا، صارفین کو ریلیف دینا اور کسانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، یہ اقدام کسانوں کو کسی حد تک غیر یقینی صورتحال میں ڈال سکتا ہے کیونکہ انہیں فصل کی فروخت کے وقت مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے والے رکن قومی اسمبلی سید طارق حسین نے زیادہ گرمی اور کم بارشوں کے باعث آئندہ سال ممکنہ گندم کی قلت پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے وزارت پر زور دیا کہ کسی بھی ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے پیشگی حکمت عملی مرتب کی جائے۔
اجلاس میں گلگت بلتستان کے عوام کو فراہم کی جانے والی سبسڈی کی معطلی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا، جس پر وزارت کے سیکریٹری نے وضاحت دی کہ سبسڈی ختم نہیں کی گئی، بلکہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اس نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے پر کام جاری ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین نے وزارت کو ہدایت دی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 20 سالہ جامع زرعی روڈ میپ تیار کیا جائے۔ اس روڈ میپ میں جدید تحقیق اور سائنسی تکنیکوں کے ذریعے زرعی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی جائے گی، جسے منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اجلاس میں چاول کی پیداوار میں اضافے کے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ وزارت قومی غذائی تحفظ نے بتایا کہ ملک میں چاول کی پیداواری صلاحیت میں 8 من فی ایکڑ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ چاول کی 8 نئی اقسام متعارف کرائی گئی ہیں، جن کی فی ایکڑ پیداوار 90 سے 100 من ہے اور یہ برآمدات کے لیے موزوں سمجھی جا رہی ہیں۔
گنے کی پیداوار پر گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ مالی وسائل کی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں اضافہ نہیں ہو سکا۔ گزشتہ 12 سالوں سے گنے کی بعض اقسام 2600 من فی ایکڑ تک پیداوار دے رہی ہیں، تاہم دیگر علاقوں میں پیداوار 1500 من فی ایکڑ کے قریب ہے۔
کمیٹی نے گنے کی پیداوار سے متعلق فراہم کردہ اعدادوشمار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پی اے آر سی کو قومی اور علاقائی سطح پر گنے کی حقیقی پیداوار سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔