لیبیا کشتی حادثہ: 73 میں سے 63 پاکستانی سوار تھے، بیشتر جاں بحق، دفتر خارجہ

حادثے میں زندہ بچ جانے والے دو پاکستانیوں نے اطلاع دی کہ کشتی میں 10 بنگلادیشی بھی موجود تھے

اسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو دفتر خارجہ کی جانب سے دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا کہ لیبیا میں پیش آنے والے المناک کشتی حادثے میں 73 افراد میں سے 63 پاکستانی تھے، جن میں سے زیادہ تر جان کی بازی ہار گئے۔

دفتر خارجہ حکام کے مطابق یہ حادثہ 8 فروری کو پیش آیا، اور کشتی میں مجموعی طور پر 86 افراد سوار تھے، جن میں 66 پاکستانی تھے۔ حادثے میں زندہ بچ جانے والے دو پاکستانیوں نے اطلاع دی کہ کشتی میں 10 بنگلادیشی بھی موجود تھے، جبکہ جان بحق ہونے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق قبائلی اضلاع کرم اور باجوڑ سے تھا۔

کمیٹی اجلاس کے دوران چیئرمین نے استفسار کیا کہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے دفتر خارجہ کیا اقدامات کر رہا ہے؟ جس پر سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر انٹرپول کے ساتھ رابطے مضبوط کیے ہیں تاکہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کو پکڑا جا سکے۔ مزید برآں، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس قائم کی جا چکی ہے، اور عوامی آگاہی کے لیے میڈیا مہم بھی شروع کی گئی ہے تاکہ لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے۔

غزہ سے متعلق ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بھی بحث کی گئی، جس کے دوران کمیٹی کے رکن شہریار اکبر خان نے بتایا کہ فلسطینی سفیر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف بل پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں غزہ میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں مکمل جنگ بندی پر توجہ دی جانی چاہیے۔ شہریار اکبر خان نے مزید کہا کہ 4 فروری کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ "غزہ پر قبضہ کرنا ہوگا”، اور 6 فروری کو ان کا ایک اور بیان آیا جس میں فلسطینی عوام کو عرب ممالک میں منتقل کرنے کی بات کی گئی۔

پاکستان کی جانب سے غزہ میں جاری صورتحال پر پہلے بھی متعدد بیانات جاری کیے جا چکے ہیں۔ اجلاس کے دوران تجویز دی گئی کہ سینیٹ کی جانب سے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جائے جس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی جائے اور فلسطین کے دارالحکومت کو القدس تسلیم کرنے پر زور دیا جائے۔

ٹرمپ کے بیان پر پاکستان کا ردعمل
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹرمپ کے بیان پر پاکستان کو سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے۔ اس پر رکن کمیٹی علی ظفر نے استفسار کیا کہ کیا دفتر خارجہ یا حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری کیا گیا ہے؟ جس پر شہریار اکبر خان نے بتایا کہ دفتر خارجہ کی جانب سے کئی بار اس بیان کو مسترد کیا جا چکا ہے، اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی دو مرتبہ اس پر سخت ردعمل دیا ہے۔

اجلاس میں اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ پاکستان کی سطح پر غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سیکرٹری خارجہ نے آگاہ کیا کہ غزہ کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا اجلاس بلانے پر بات چیت جاری ہے اور اس سلسلے میں وزیر خارجہ مختلف اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے میں ہیں۔

رکن کمیٹی علی ظفر نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں سوال کیا، جس پر شہریار اکبر خان نے بتایا کہ اب تک مجموعی طور پر 61,000 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔

اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کو فلسطینی عوام کے حق میں سفارتی اور سیاسی سطح پر مزید مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی جارحیت کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین