ججز عدالتی افسران پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں تھا

اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے ایک اہم فیصلے میں رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ججز، عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز نہیں کر سکتے، تاہم ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ضرور کی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل بینچ نے رجسٹرار سردار طاہر صابر اور ڈپٹی رجسٹرار محمد اویس الحسن خان کی جانب سے دائر اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔ ان افسران کے خلاف وکیل نعیم بخاری کی درخواست پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وکلا کی ہڑتال کے دوران امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی پر ان کے خلاف کارروائی بنتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی عدالتی افسر کے خلاف ڈیوٹی میں کوتاہی کی صورت میں مناسب فورم یہی ہے کہ متعلقہ مجاز اتھارٹی کو شکایت کی جائے اور انضباطی کارروائی کی جائے، بجائے اس کے کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا کوئی جواز نہیں تھا اور یہ عمل آزاد عدالتی نظام کے لیے رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ بینچ نے مزید کہا کہ جہاں کوئی عدالتی یا انتظامی حکم موجود نہ ہو، وہاں توہین عدالت کا اطلاق ممکن نہیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے دوران سماعت مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکلین نے کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، لہٰذا ان پر جھوٹی گواہی کا الزام لگانا درست نہیں۔ وکیل نے مزید کہا کہ توہین عدالت کی بجائے اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی تھی تو اس کا حل محکمانہ کارروائی تھا، نہ کہ عدالتی کارروائی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ توہین عدالت کی کارروائی کے احکامات قابل اپیل ہوتے ہیں اور اگر کسی جج کو کسی عدالتی افسر کے خلاف کوئی شکایت ہو تو اس معاملے کو چیف جسٹس یا عدالت کی انتظامی کمیٹی کے سامنے پیش کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے انکوائری کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور نہ ہی کوئی خلاف ورزی ہوئی، جس کے باعث توہین عدالت کی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔

یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی، جب کہ لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبہر گل خان کو بھی ایک انتظامی معاملے میں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے قانونی پہلوؤں پر نئی بحث چھڑ گئی ہے، جبکہ عدالتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے محکمانہ کارروائیوں کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین