لاہور:پاکستان میں فروخت ہونے والے سگریٹ کے 54 فیصد برانڈز غیر قانونی ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کو سالانہ 300 ارب روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس میں اسمگل شدہ اور بغیر ٹیکس ادا کیے گئے مقامی برانڈز شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی او آر) کے مطالعے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کے 413 برانڈز فروخت ہو رہے ہیں، جن میں سے صرف 19 مکمل طور پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم (ٹی ٹی ایس) پر عمل کر رہے ہیں، جبکہ 13 برانڈز جزوی طور پر اس سسٹم کے مطابق ہیں۔ حیران کن طور پر، 95 برانڈز پر گرافک ہیلتھ وارننگ (جی ایچ ڈبلیو) موجود نہیں تھی، جبکہ 286 برانڈز میں نہ تو ٹیکس اسٹیمپ تھا اور نہ ہی صحت سے متعلق کوئی انتباہی وارننگ۔
آئی پی او آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طارق جنید کے مطابق، یہ تحقیق 19 اضلاع میں ایک ہزار 520 ریٹیل آؤٹ لیٹس پر کی گئی، جس سے یہ معلوم ہوا کہ سگریٹ کی غیر قانونی فروخت کو روکنے کے لیے 2021 میں متعارف کرایا گیا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم مؤثر ثابت نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں سگریٹ کے پیکٹس پر گرافک ہیلتھ وارننگ (جی ایچ ڈبلیو) 2009 میں لازمی قرار دی گئی تھی، لیکن 16 سال گزرنے کے باوجود اب بھی بازار میں ایسے سگریٹ موجود ہیں جن پر یہ وارننگ درج نہیں۔ اس کے علاوہ، سگریٹ کی غیر قانونی فروخت میں 45 فیصد برانڈز اسمگل شدہ ہیں، جبکہ 55 فیصد مقامی طور پر بنائے گئے ہیں، جن پر ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی۔
مطالعے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 332 برانڈز وہ ہیں جو قانونی طور پر مقرر کردہ کم از کم قیمت 162.25 روپے فی پیکٹ سے کم میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بعض سگریٹ 40 روپے فی پیکٹ تک میں دستیاب ہیں، جس کے نتیجے میں حکومت کو بڑی مقدار میں ریونیو کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
طارق جنید کا کہنا ہے کہ غیر قانونی اور اسمگل شدہ سگریٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے حکومت کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اس صورتحال میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ پوائنٹ آف سیل پر سختی سے عمل درآمد کیا جا سکے اور حکومت کے ریونیو کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔”
تحقیق کے مطابق، شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں غیر قانونی سگریٹ کی فروخت زیادہ عام ہے۔ اس لیے متعلقہ ادارے، خاص طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، کو دیہی مارکیٹس میں سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جہاں غیر قانونی سگریٹ زیادہ مقدار میں فروخت ہو رہی ہیں۔
آئی پی او آر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سگریٹ کے قوانین پر عمل درآمد کو مزید سخت کرے اور موجودہ جرمانوں میں اضافہ کرے۔ مزید برآں، تمباکو مصنوعات تیار کرنے والے اداروں اور ریٹیلرز پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ حکومتی قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنائیں تاکہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت پر قابو پایا جا سکے۔