پاکستان میں قومی اسمبلی کی کارکردگی اور اخراجات سے متعلق پلڈاٹ کی جائزہ رپورٹ جاری کردی گئی ہے، جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران قانون سازی میں بے حد تیزی دیکھی گئی، لیکن بحث کم ہونے کی وجہ سے ترامیم کی جانچ پڑتال متاثر ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق، ایک ممبر قومی اسمبلی پر سالانہ 37.9 ملین روپے خرچ ہوئے، جبکہ وزیراعظم کی حاضری صرف 18 فیصد رہی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے 16ویں قومی اسمبلی کی سالانہ جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں اسمبلی کی کارکردگی، قانون سازی کے عمل اور اراکین کی حاضری پر تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ایک سال میں قومی اسمبلی میں بحث کم ہوئی، جبکہ قانون سازی میں غیرمعمولی تیزی دیکھی گئی۔ تاہم، تیز رفتاری کے باعث ترامیم کی جانچ پڑتال کا عمل متاثر ہوا، جس سے قانون سازی کے معیار پر سوالات اٹھے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں قانون سازی کی رفتار میں 370 فیصد اضافہ ہوا، لیکن کئی قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کرلیے گئے۔ اس کے علاوہ، اراکین کی حاضری میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آئی، اور مجموعی طور پر حاضری کی شرح 66 فیصد تک محدود رہی۔
وزیراعظم کی اسمبلی اجلاسوں میں شرکت کا تناسب بھی کم رہا اور وہ صرف 18 فیصد اجلاسوں میں شریک ہوئے، جبکہ قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے 62 اجلاسوں میں شرکت کی۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہوئی۔ 3 اپریل تک کمیٹیاں بنانے کی آخری تاریخ تھی، لیکن اس کے باوجود انہیں بروقت تشکیل نہیں دیا گیا۔
مزید یہ کہ قومی اسمبلی کے ہر رکن پر سالانہ 37.9 ملین روپے کا خرچہ آیا، جو عوامی ٹیکس سے ادا کیا گیا۔ اس کے علاوہ، اسمبلی نے اپنے ایجنڈے کے 49 فیصد نکات پر کوئی کارروائی نہیں کی، جس سے اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔