کانگریس ترجمان نے روہت شرما کو جلدی آؤٹ ہونے پر موٹا کہہ دیا

پارٹی قیادت کے دباؤ پر شمع محمد نے اپنی متنازع پوسٹ کے ساتھ وہ تمام پوسٹس بھی ڈیلیٹ کر دیں

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما کی کارکردگی پر کانگریس کی ترجمان شمع محمد کے بیان نے تنازع کھڑا کر دیا۔ انہوں نے روہت کو وزن کم کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہیں "موٹا” قرار دیا، جس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ بی جے پی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کانگریس پر سخت تنقید کی، جبکہ کانگریس نے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور شمع محمد کو پوسٹ حذف کرنے کی ہدایت دی۔ تاہم، شمع محمد نے معافی نہیں مانگی، جس سے معاملہ مزید طول پکڑ گیا۔

تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما صرف 15 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے، جس پر کانگریس کی ترجمان شمع محمد نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں "موٹا” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک کھلاڑی کے لیے روہت شرما کا وزن زیادہ ہے اور انہیں فٹنس پر توجہ دینی چاہیے۔

شمع محمد نے مزید کہا کہ روہت شرما کو "ورلڈ کلاس” کہلانا حقیقت سے بعید ہے اور ان کا موازنہ سابق کپتانوں جیسے سچن ٹنڈولکر، سورو گنگولی، مہندرا سنگھ دھونی، کپل دیو اور روی شاستری سے نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس بیان کے بعد بھارت میں زبردست ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس موقع کو کانگریس کے خلاف استعمال کرتے ہوئے سخت ردعمل دیا اور اسے کانگریس کی "ایمرجنسی ذہنیت” سے تعبیر کیا۔ بی جے پی کے ترجمان پردیپ بھنڈاری نے طنزیہ سوال کیا کہ "کیا راہل گاندھی سیاست میں ناکامی کے بعد کرکٹ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں؟”

روہت شرما کے مداحوں نے بھی اس تبصرے پر غصے کا اظہار کیا اور ان کی قیادت میں بھارتی ٹیم کی شاندار کارکردگی کے اعداد و شمار پیش کرکے شمع محمد کے دعوے کو مسترد کر دیا۔

شدید عوامی ردعمل کے بعد کانگریس نے بھی صورتحال سنبھالنے کی کوشش کی اور شمع محمد کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ پارٹی کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے وضاحت دی کہ کانگریس اپنے قومی ہیروز کی عزت کرتی ہے اور اس طرح کے تبصروں کی حمایت نہیں کرتی۔

پارٹی قیادت کے دباؤ پر شمع محمد نے اپنی متنازع پوسٹ کے ساتھ وہ تمام پوسٹس بھی ڈیلیٹ کر دیں جن میں وہ اپنے بیان کا دفاع کر رہی تھیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر معافی نہیں مانگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا تبصرہ ایک عمومی رائے تھی اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کو کیوں محدود کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین