بجٹ 2025-26ء ۔۔۔ عوام کو کیا ملا؟

بجٹ 2025-26ء میں 280ارب سے زائد کے نئے ٹیکس لگانے کے بعد یہ کہنا کہ بجٹ عوام دوست ہے در حقیقت ایسا کہنے والے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہیں۔

ایک وقت تھا قوم کے بچے بچے کی نظر سالانہ بجٹ پر ہوتی تھی کیونکہ سال بھر کے لئے بجلی، گیس، پٹرول، ٹیلیفون، چینی، دالوں، مصالحوں کی قیمتوں کا تعین ہونا ہوتا تھا، ہر شخص اپنا کان ریڈیو اور آنکھیں پاکستان ٹیلی ویژن پر پیوست کر لیتا تھا کیونکہ بجٹ کے موقع پر قیمتوں کا جو تعین ہوتا تھا وہ سال بھر کے لئے ہوتا تھا، تنخواہ دار، مزدور، کم آمدنی والے شہریوں اور خاندانوں کو علم ہوتا تھا کہ میری ماہانہ آمدن اتنی ہے اور اب میں نے سال بھر اتنا خرچ کرنا ہے۔

ماضی میں بجٹ کا تخمینہ سال بھر کے لئے ہوتا تھا،سال کے بعد بجٹ کے ذریعے اگر بجلی، پٹرول یا گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا یا کمی ہوتی تھی تو وہ پیسوں میں ہوتی تھی کبھی چند پیسے بڑھ گئے، کبھی چند پیسے کم ہو گئے۔ اگر کبھی بجلی، پٹرول اور ٹیلیفون کی قیمتوں میں پیسوں میں اضافہ ہو جاتا تھا تو اضافہ کرنے والے حکمران خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین انہیں پسینہ آیا ہوا ہوتا تھا، وہ ٹیکس بڑھا کر عوام کے سامنے جانے سے گھبراتے تھے اور قسمیں اٹھا اٹھا کر یقین دلاتے تھے کہ یہ اضافہ ناگزیر تھا اس کے باوجود معذرت بھی کرتے تھے، شرافت کی سیاست کا دور دورہ ہوتا تھا۔عوام کو کیڑے مکوڑے نہیں سمجھاجاتا تھا۔ٹیکسوں میں اضافہ پر اگر اسمبلیاں موجود ہوتیں تو اپوزیشن آسمان سر پر اٹھا لیتی تھیں مگر اُس وقت کی حکومتیں مخالفت کرنے والے سیاستدانوں کو نہیں اٹھاتی تھیں۔

اسے بھی پڑھیں: افراد کی بجائے ادارے مضبوط ہونے چاہئیں

جنرل ایوب کا فوجی دور ہو یا جنرل ضیاء الحق یا جنرل مشرف کا طویل ترین فل مارشل لا یا منی مارشل لا عوام کی رائے اور مسائل کو کسی حد تک سمجھا اور سنا جاتا تھا، اس وقت مارشلائوں یا غیر جمہوری ادوار حکومت میں صرف وہ سیاستدان تختہ مشق بنتے تھے جو فوجی یا نیم فوجی ایجنڈے کے لئے براہ راست اور اعلانیہ خطرہ ہوتے تھے ۔مزاحمت کرنے والوں پر ضرور سختیاں ہوتی تھیں مگر اُن کے بیوی، بچے ، ان کے رشتہ داروں کا جان و مال، عزتِ نفس ،روزگار مکمل محفوظ ہوتا تھا، بعض رشتہ داروں کو تو علم بھی نہیں ہوتا تھا کہ اُن کے قریبی عزیز سیاستدان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب شرح خواندگی زیادہ نہ تھی، عوامی شعور اتنا پختہ نہ تھا، شہر شہر یونیورسٹیاں اور کالجز کے جال نہیں بچھے ہوئے تھے، خزانے میں اتنے زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے مگر قرض پر نظر نہ ہوتی تھی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک والے گلی گلی دندناتے ہوئے نظر نہیں آتے تھے، جتنی آمدن ہوتی تھی اُتنے ہی خرچے کرنے کا رواج تھا، حکومتوں سے لے کر عام آدمی چادر کے مطابق پائوں پھیلاتا تھا، دیگر ملکوں کی طرح ہمارے ہاں زراعت کی ترقی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، گندم، چاول کی فی ایکڑپیداوار آج کے مقابلے میں آدھی تھی مگر کبھی آٹا مارکیٹ سے غائب نہیں ہوا تھا، کبھی گندم امپورٹ نہیں کی جاتی تھی اور نہ کبھی لائنوں میں لگ کر پولیس کی لاٹھیوں کے سائے میں آٹا لینے کی نوبت آتی تھی، اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے گندم، چاول کا بحران آتا بھی تھا تو لوگ ایک دوسرے سے مل کر گزارہ کر لیتے تھے مگر بھوکا کوئی نہیں سوتا تھا، پھر زراعت کی ترقی کا دور آیا ، بنجر زمینیں لاکھوں ایکڑ میں ہر سال آباد ہونے لگیں، پیداوار ڈبل ہو گئی مگر آٹا مہنگا اور نایاب ہوتا چلا گیا، گندم ایکسپورٹ کرنے کی بجائے امپورٹ ہونے لگی، اُن ملکوں سے گندم اونے پونے خریدنا ایک قومی بزنس بن گیا جو ہر سال اپنی خراب گندم سمندر میں پھینک دیتے تھے، سمندروں میں پھینکنے جانے کے لائق یہ گندم ہمارے حکمرانوں نے خریدنا شروع کر دی اور قومی پیسے سے بھاری قیمت ادا کرتے اور پھر وہی گلی سڑی گندم آٹے میں تبدیل کر کے یوٹیلٹی سٹوروں میں سبسڈائز کر کے عام آدمی کو بیچی جاتی یعنی ناقص گندم مہنگے داموں خرید کر خزانے کو ٹیکہ لگایا جاتا اور پھر دوسرا ٹیکہ سبسڈی کے نام پر لگایا جاتا اور ساتھ عام آدمی کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا جاتا کہ ہم کسی غریب کو بھوکا نہیں سونے دیں گے۔

قومی آمدن بڑھنے لگی ٹیکس کولیکشن بڑھنے لگی، ریاستی وسائل بڑھنے لگے مگر جادوگری یہ تھی ملک قرض در قرض کے جال میں پھنستا چلا گیا، عام آدمی کا دیوالیہ نکل گیا، وہ خطہ جو ہمسایہ ملکوں کے لئے فوڈ باسکٹ ہوتا تھا وہ روز مرہ کی خوراک کا سب سے بڑا امپورٹر بن گیا، وہ سعودیہ عرب جہاں گندم کاایک دانہ نہیں اگتا تھا وہ سعودی عرب گندم میں خودکفیل ہو گیا اور ہم گندم چاول، کاٹن، چینی، دالوں، مصالحوں کے امپورٹر بن گئے۔ یہ سارے حالات و واقعات ہمارے عہد کے ہیں یعنی ان کی تاریخ چالیس سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے، اگر کوئی یہ کہے کہ یہ سب گزشتہ چالیس سال میں آنے والی حکومتوں کی کرپشن، نااہلی کی وجہ سے ہوا تو یہ سوچ اور نظر کا بہت بڑا دھوکہ ہے کیونکہ کرپشن امریکہ میں بھی ہے، کرپشن یورپ میں بھی ہے ، کوئی ملک ایسا نہیں جو کرپشن فری ہونے کا دعویٰ کر سکے، ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کرپشن بہت ہے مگر آج تک کوئی ملک کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے ٹوٹا نہ تباہ ہوا، اگر کرپشن تباہی کا سبب ہوتی تو آج بہت سارے ملکوں کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، کرپشن تباہی اور بربادی کے لئے راستے ہموار ضرور کرتی ہے مگر ملکوں کی بربادی کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان کی بربادی کیسے ہوئی؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے یہ سب منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا۔ اس ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لئے سر جوڑ کر منصوبے بنائے گئے پھر ان منصوبوں میں عمل کے رنگ بھرے گئے، باقاعدہ نگرانی کی گئی، ایسے عوامی نمائندوں اور جماعتوں کا انتخاب کیا گیا جو بیرونی قوتوں کے ایجنڈوں پر عملدرآمد کرنے کی بھرپور قوت رکھتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت وہ سب چہرے ہیں جو 40سال پہلے بھی سیاہ و سفید کے مالک تھے آج بھی وہی چہرے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ امریکہ کا طاقتور ترین صدر 8 سال کے بعد منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ امریکہ کا قابل ترین صدر چار، چار سال کے صرف دو ادوار گزار سکتا ہے۔ کہاں ہے کلنٹن؟ کہاں ہے بش؟ کہاں ہے اوباما؟ کہاں ہے بائیڈن؟ مگر ہمارے ہاں جو لوگ 40 سال پہلے سیاہ و سفید کے مالک تھے وہ آج بھی اُسے کروفر کے ساتھ سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ پاکستان کے لوگ بھی کتنے سادہ ہیں کہ جن لوگوں نے چالیس سال قبل گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر تعمیر و ترقی کو ریورس گیئر لگایا تھا آج بھی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں اور ہم سمجھ رہے ہیں وہ ترقی کا پانچواں گیئر بس لگانے ہی والے ہیں۔

اس وقت پاکستان 8 ہزار ارب روپے سے زیادہ صرف سود کی مد میں ادا کرنے والا ملک ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں 8ہزار ارب سود دینے والا ملک کبھی اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ آپ ہزاروں صفحات پر مشتمل بجٹ دستاویز کو دیکھ لیں آپ کو کسی صفحے پر قرضہ اتارنے کا کوئی پلان نظر نہیں آئے گا کیونکہ پاکستان کو قرضوں میں جکڑنے کے منصوبے تو بنتے ہیں مگر قرض سے نجات کیلئے کبھی چند لمحے بھی غور و فکر نہیں ہوا ہے۔ جو ملک 8ہزار ارب سالانہ سود ادا کرتا ہو کیا اس ملک کے 30ہزار سے زائد بیورو کریٹس کو مفت گھر، مفت گاڑی ، مفت پٹرول، مفت ٹیلیفون، مفت کھانوں، مفت بجلی، مفت گیس، مفت بری و فضائی سفر وں کی سہولت میسر ہونی چاہیے؟ 37ہزار لینے والا درجہ چہارم کا سرکاری ملازم اسی تنخواہ میں کرائے کا گھر بھی لیتا ہے، بجلی ، گیس کا بل بھی ادا کرتا ہے، اپنے بچوں کو پڑھاتا بھی ہے ،ان کا پیٹ بھی پالتا ہے،علاج بھی کرواتا ہے اور لاکھوں میں تنخواہ لینے والوں کو یہ سب سہولیات تھوک کے حساب سے مفت میسر ہیں۔ اگر پاکستان کو قرضوں سے باہر نکالنا ہے تو پھر سب سے پہلے 30ہزار بیورو کریٹس کی تمام مراعات ختم کی جائیں، اُن کو عام آدمی کی طرح اپنی فکس تنخواہ میں رہنا سکھایا جائے ۔اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام کے ریجنل چیف Kanni Wignaraja کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ سالانہ 17.4ارب ڈالر یعنی تقریباً 4250ارب روپے کی مراعات لیتی ہے جو جی ڈی پی کا 4.5فیصد بنتا ہے۔ یاد رہے صحت پر جی ڈی پی کا ایک فیصد سے کم اور تعلیم پر دو فیصد سے کم خرچ ہوتا ہے۔ بجٹ 2025-26ء میں 280ارب سے زائد کے نئے ٹیکس لگانے کے بعد یہ کہنا کہ بجٹ عوام دوست ہے در حقیقت ایسا کہنے والے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین